محفوظ کریں
  • New List
مزید
    محفوظ کریں
    • New List
4,74704/جمادى الثانية/1428 , 19/جون/2007

طلبا نہ ہونے كى بنا پر مدرسين كا ڈيوٹى وقت ختم ہونے سے قبل چلے جانے كا حكم

سوال: 85055

ميں معلمہ ہوں اور چھٹيوں سے واپسى كے ايام ميں ہمارے پاس كوئى كام نہيں ہوتا، تو ان ايام ميں ہم ڈيوٹى سے تقريبا تين گھنٹے قبل جانا چاہتى ہيں، يہ علم ميں رہے كہ محكمہ نے ہميں اس كى اجازت بھى دے ركھى ہے، اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

اگر كوئى كام نہ ہو اور محكمہ نے معلمات كو جانے كى اجازت بھى دے ركھى ہو تو وقت سے قبل جانے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ محكمہ كو كام كى مصلحت كا زيادہ علم اور اس كى زيادہ نظر ہوتى ہے، اور ملازمين پر كاموں كى تقسيم كا علم ہوتا ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص ملازم ہے اور اس كے پاس جو كام ہوتا ہے وہ ختم كرنے كے بعد ڈيوٹى ختم ہونے سے قبل اس كے ليےگھر جانے كا حكم كيا ہے، خاص كر رمضان المبارك ميں، كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" جائز نہيں، اس كے ليے ڈيوٹى ختم ہونے تك دفتر ميں رہنا واجب اور ضرورى ہے، مگر وہ اس محكمہ كى اجازت سے جا سكتا ہے جہاں كام كرتا ہے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے كوئى نيا كام آ جائے، اور اس كى ضرورت پڑ جائے، اس ليے ملازم پر واجب ہے كہ وہ ڈيوٹى كا وقت ختم ہونے تك دفتر ميں موجود رہے، ليكن حكومت يا پھر اس ادارہ كى اجازت سے جا سكتا ہے جو اس كا ذمہ دار ہے " انتہى

ماخوذ از: نور على الدرب.

واللہ اعلم .

حوالہ نمبر

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

ٹیکسٹ فارمیٹنگ کے اختیارات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android