منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

ہديہ فروخت كرنا اور بطور ہديہ كسى اور دينے كا حكم

70272

تاریخ اشاعت : 25-05-2007

مشاہدات : 5252

سوال

كيا ہديہ فروخت كرنا جائز ہے، كيونكہ ايك مقولہ ہے ہديہ نہ تو فروخت كيا جاتا ہے اور نہ ہى كسى اور كو وہ ہديہ كيا جاتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

لوگوں كے درميان يہ مقول بہت ہى مشور و معروف ہے كہ: ہديہ نہ تو فروخت كيا جا سكتا ہے، اور نہ ہى كسى اور كو ہديہ ديا جاتا ہے "

اور يہ مقولہ صحيح نہيں، بلكہ شريعت كے مخالف ہے، كيونكہ جو كوئى بھى كسى ہديہ كا كسى شرعى طريقہ پر مالك بن جائے تو اسے اس ميں تصرف كرنے كا حق حاصل ہے، چاہے وہ اسے فروخت كرے، يا پھر اسے كرايہ پر دے، يا كسى كو ہديہ كردے، يا وقف كر دے، اس ميں كسى بھى قسم كا كوئى حرج نہيں.

اور جس نے بھى ايسا كرنے سے منع كيا، يا خود رك گيا اس نے صحيح نہيں كيا، سنت نبويہ ميں ايسا كرنے پر صحيح احاديث ملتى ہيں:

1 - على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ دومۃ الجندل كے اكيدر نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ريشمى كپڑا بطور ہديہ ديا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وہ كپڑا على رضى اللہ تعالى عنہ كو دے كر فرمايا:

" اس كے چادريں بنا كر اپنى جتنى فاطمہ ہيں انہيں دے دو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2472 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2071 ).

اكيدر دومۃ:

يہ شخص اكيدر بن عبد الملك الكندى ہے، اس كے اسلام لانے كا مسئلہ مختلف فيہ ہے، اور اكثر علماء كہتے ہيں كہ يہ اسلام نہيں لايا تھا.

الخمر: خمار كى جمع ہے، جس كا معنى اوڑھنى اور چادر ہے.

الفواطم: يہ تين عورتيں تھيں جن كا نام فاطمہ تھا، وہ يہ ہيں: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيٹى فاطمہ، اور فاطمہ بنت اسد، جو كہ على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كى ماں تھيں، اور فاطمہ بنت حمزہ بن عبد المطلب.

اس حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جو ہديہ ديا گيا تھا وہ آپ نے آگے على رضى اللہ تعالى عنہ كو دے ديا، جو كہ ہديہ كى چيز كسى اور كو ہديہ نہ دينے كے باطل ہونے پر دلالت كرتى ہے.

2 - عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے بازار ميں فروخت ہونے والا ايك ريشمى جبہ خريدا اور لا كر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديا اور كہنے لگے: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ جبہ لے ليں اور عيد اور وفد كا استقبال كرنے كے ليے بطور زيبائش استعمال كيا كريں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہ تو ايسے افراد كا لباس ہے جن كا آخرت ميں كوئى حصہ نہيں "

تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كچھ مدت اسى حالت ميں رہے جتنا اللہ نے چاہا اور پھر كچھ مدت كے بعد رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك ريشمى جبہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو بھيجا، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ وہ جبہ لے كر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ نے تو يہ فرمايا تھا كہ يہ ايسے افراد كا لباس ہے جن كا آخرت ميں كوئى حصہ نہيں، اور آپ ميرے پاس يہ جبہ بھيج رہے ہيں !

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:

" اسے فروخت كردو، يا پھر اس سے اپنى ضرورت پورى كر لو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 906 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2068 ).

اس حديث ميں ہديہ فروخت كرنے كا جواز بيان ہوا ہے، كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو ديے جانے والے ہديہ كے متعلق فرمايا:

" اسے فروخت كر لو "

3 - ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ہم ايك سفر ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھے، ميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ايسے اونٹ كے بچے پر سوار تھا جو بہت ہى زيادہ بدكنے والا تھا اور وہ مجھ پر غالب آكر سب لوگوں سے آگے بھاگ جاتا تو عمر رضى اللہ عنہ اسے ڈانٹ ڈپٹ كر واپس كرتے، وہ پھر آگے بڑھ جاتا اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ اسے ڈانٹ ڈپٹ كر پيچھے كرتے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا:

" يہ مجھے فروخت كر دو "

تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ آپ كا ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

يہ مجھے بيچ دو تو انہوں اسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ہاتھ فروخت كر ديا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اے عبد اللہ بن عمر يہ تيرا ہے، تم اس كے ساتھ جو كچھ چاہو كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2010 ).

بكرا: اونٹ كا وہ بچہ جو سوارى كے ليے نيا نيا تيار ہوا ہو.

صعب: بہت زيادہ بدكنے والا.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان:

" يہ آپ كا ہے تم اس كے ساتھ جو چاہو كرو "

اس بات كى دليل ہے كہ جسے بھى كوئى چيز ہديہ ملے اور وہ اس كا مالك بن جائے تو وہ جس طرح چاہے اس ميں تصرف كر سكتا ہے، چاہے وہ اسے فروخت كردے، يا پھر اسے كسى اور شخص كو ہديہ دے دے، يا كوئى اور تصرف كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب