اگر وہ اپنى بدعات كى دعوت نہيں ديتا اور جب اسے حق معلوم اور واضح ہو جائے تو جھگڑا نہيں كرتا تو اسے امامت كے ليے آگے كرنے ميں كوئى حرج نہيں، وگرنہ اس كے علاوہ كوئى اور شخص بہتر ہے، چاہے وہ اس سے كم حفظ والا ہى ہو.
واللہ اعلم .
اگر حافظ قرآن اشعرى عقيدہ ركھے تو كيا اسے امامت كے مقدم كيا جائيگا يا نہيں ؟
ہمہ قسم کی حمد اللہ کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:
اگر وہ اپنى بدعات كى دعوت نہيں ديتا اور جب اسے حق معلوم اور واضح ہو جائے تو جھگڑا نہيں كرتا تو اسے امامت كے ليے آگے كرنے ميں كوئى حرج نہيں، وگرنہ اس كے علاوہ كوئى اور شخص بہتر ہے، چاہے وہ اس سے كم حفظ والا ہى ہو.
واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد