جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

دعاء ختم قرآن

37683

تاریخ اشاعت : 14-09-2009

مشاہدات : 10243

سوال

رمضان المبارك ميں اكثر لوگ قرآن مجيد ختم كر كے دعا كرتے ہيں جسے ختم قرآن كى دعا كا نام ديا جاتا ہے، كيا يہ سنت ہے يا بدعت ؟
اس دعا كا طريقہ يہ ہے كہ كھانا پكا كر امام صاحب يہ دعا كرتے ہيں اور پھر كئى لوگوں ميں يہ كھانا تقسيم كيا جاتا ہے برائے مہربانى اس سوال كا جواب ديں، كيونكہ اكثر لوگ يہ دعا كرتے ہيں، اور اسى طرح ماتم اور ہر جمعرات بھى ايسا كيا جاتا ہے، اگر اس كے متعلق كوئى مخصوص حديث ہے تو برائے مہربانى بيان فرمائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ختم قرآن كى دعا جس كيفيت ميں سائل نے بيان كى ہے يہ بدعت و برائى ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور سلف صالحين صحابہ رضى اللہ عنہ سے بھى يہ ثابت نہيں، اگر يہ خير و بھلائى ہوتى تو وہ لوگ ہم سے اس ميں سبقت لے جاتے.

سلف رحمہ اللہ سے قرآن مجيد ختم كرنے كے بعد بغير كسى دعا كى تعيين اور التزام كيے يا كسى مخصوص صيغہ كے بغير دعا ثابت ہے، اس ليے جب مسلمان شخص قرآن مجيد ختم كرے چاہے رمضان ميں ہو يا رمضان كے علاوہ كسى اور مہينہ ميں تو اس كے ليے ہاتھ اٹھا كر اللہ تعالى سے دنيا و آخرت كى بھلائى كى دعا كرنا جائز ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا ختم قرآن كى كوئى معين اور مخصوص دعا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

ہمارے علم كے مطابق تو اس كے متعلق كوئى مخصوص اور معين دعا ثابت نہيں، اس ليے انسان كے ليے كوئى بھى دعا كرنا جائز ہے، وہ كوئى نفع مند دعا اختيار كرے اور اپنے گناہوں كى بخشش اور جنت ميں داخلہ كى طلب اور آگ سے پناہ مانگے، اسى طرح فتنے و فساد سے پناہ طلب كرے، اور قرآن مجيد كو اس طرح سمجھنے كى توفيق طلب كرے جس طرح اللہ راضى ہوتا ہے اور اس پر عمل اور اسے حفظ كرنے كى توفيق مانگے.

كيونكہ انس رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ جب وہ قرآن مجيد ختم كرتے تو اپنے اہل و عيال كو جمع كر كے دعا مانگتے تھے "

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 11 / 358 ).

ليكن يہ دعا كھانے پر پڑھنى اور كھانا تقسيم كرنا، اور ماتم ميں يا جمعرات كى رات ايسا كرنا بدعت ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ہميں حكم ديا ہے كہ ہم آپ صلى اللہ عليہ وسلم اور آپ كے بعد خلفاء راشدين كے طريقہ پر چليں اور ہميں دين ميں بدعات ايجاد كرنے سے منع فرمايا ہے، اور يہ بتايا ہے كہ بدعت گمراہى ہے، اور ہر بدعت آگ ميں جانے كا باعث ہے، اور بدعت كا گناہ بدعت كرنے والے پر ہوتا ہے اور وہ بدعتى عمل اس پر واپس پلٹا ديا جاتا ہے، اسے كوئى ثواب حاصل نہيں ہوتا.

سنن ابو داود ميں عرباض بن ساريہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ميں سے جو كوئى بھى ميرے بعد زندہ رہے گا تو وہ عنقريب بہت سارا اختلاف ديكھےگا، اس ليے تم ميرى اور ميرے خلفاء راشدين مہديين كى سنت اور طريقہ كى پيروى كو لازم ركھنا، اس پر مضبوطى سے جمے رہنا، اور بدعات و نئے كام ايجاد كرنے سے گريز كرنا، كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3851 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب