اول:
غاصب شخص شدید وعید کا مستحق ہے
جس شخص نے اپنی بہن کے مکان پر اس کی رضامندی کے بغیر قبضہ کیا، وہ غاصب (ظالم) اور حد سے تجاوز کرنے والا ہے اور شریعت کی شدید وعید کا مستحق ہے۔
جیسے کہ صحیح بخاری (3198) اور صحیح مسلم (1610) نے سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "جس شخص نے ظلم کرتے ہوئے زمین کا ایک بالشت بھی ہتھیایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دے گا۔"
نیز مسند احمد میں یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "جس آدمی نے ظلم کرتے ہوئے زمین میں سے ایک بالشت بھی لے لی، اللہ تعالیٰ اسے حکم دے گا کہ وہ سات زمینوں کی گہرائی تک اسے کھو دے، پھر قیامت کے دن تک وہ اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے۔" اس حدیث کو شیخ البانی نے سلسلہ صحیحہ (240) میں صحیح قرار دیا ہے۔
پس اگر اس کی بہن کا انتقال اس حال میں ہو گیا کہ اس نے اپنے بھائی کو معاف نہیں کیا تھا، لیکن وہ شخص اللہ کے سامنے صدقِ دل سے توبہ کر لے، تو امید ہے کہ اللہ اسے معاف کر دے گا اور روزِ قیامت اس کی بہن کو راضی کر دے گا۔ ورنہ اس کی بہن اس کی نیکیوں میں سے معاوضہ کے طور پر لے گی، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "جس شخص نے اپنے بھائی پر کوئی ظلم کیا ہے، تو وہ اس سے دنیا میں ہی معافی حاصل کر لے، کیونکہ وہاں (قیامت کے دن) کوئی درہم اور دینار نہیں ہوگا۔ قبل اس کے کہ اس کی نیکیاں اس سے لے کر اس کے بھائی کو دے دی جائیں، اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو اس کے بھائی کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے۔" صحیح بخاری: (6534)
دوم:
غاصب اگر اس مغصوبہ جائیداد کا وارث بن جائے
اگر اس کی بہن کا انتقال ہو گیا اور وہ اس کا واحد وارث ہو تو اس مکان کی ملکیت شرعاً اس بھائی کو منتقل ہو جائے گی اور اس طرح اس مکان پر غصب کا حکم ختم ہو جائے گا۔
الموسوعۃ الفقھیۃ میں (31/255) مذکور ہے:
"مالکی فقہاء فرماتے ہیں: اگر غاصب مغصوبہ چیز کو اس کے مالک سے خرید لے یا اس کا وارث بن جائے تو وہ اس چیز کا مالک بن جاتا ہے۔"
واللہ اعلم۔