اول:
غسل خانے میں گفتگو اگر قضائے حاجت کے دوران ہو تو یہ ممنوع ہے، خلاف ادب اور مروت سے بھی متصادم ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" قضائے حاجت کے دوران گفتگو کرنا متفقہ طور پر مکروہ ہے ۔
ہمارے [شافعی] فقہائے کرام کہتے ہیں: قضائے حاجت کے دوران ہمہ قسم کا کلام کرنا مکروہ ہے، تاہم جہاں ضرورت ہو وہاں استثنا دیا جائے گا، مثلاً : قضائے حاجت کرنے والا شخص کسی نابینا شخص کو دیکھے کہ وہ کسی کنویں میں گرنے والا ہے یا وہ کسی سانپ کو دیکھے یا کسی موذی جانور کو دیکھے جو کسی انسان کو نقصان پہنچانے کے لیے اس کی طرف بڑھ رہا ہو یا انسان کے علاوہ کسی بھی ایسی چیز کی طرف بڑھ رہا ہو جس کی جان بچانا یا احترام کرنا ضروری ہے تو ان حالتوں میں قضائے حاجت کے دوران گفتگو کرنا مکروہ نہیں ہے بلکہ ان میں سے اکثر صورتیں ایسی ہیں جن میں بات کرنا واجب ہے ۔" ختم شد
"المجموع" (2 / 88)
اور اگر غسل خانے میں گفتگو قضائے حاجت کی حالت میں نہ ہو تو پھر ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جو غسل خانے میں بات کرنے سے روکنے پر دلالت کرتی ہو؛ کیونکہ کسی بھی کام کا اصل حکم مباح ہوتا ہے۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
" قضائے حاجت میں مصروف ہونے سے پہلے واش روم میں داخل ہونے کے بعد گفتگو کرنے کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
اس میں کوئی حرج نہیں ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب گفتگو کرنے کی ضرورت ہو، کیونکہ اس عمل سے روکنے کی کوئی صریح ممانعت نہیں ہے۔ ممانعت صرف اس معاملے کے متعلق ہے کہ جب دو فرد ایک دوسرے کے سامنے قضائے حاجت کے لیے بیٹھیں اور دونوں اسی دوران ایک دوسرے سے باتیں بھی کریں۔ یہ کام کرنا منع ہے، چنانچہ قضائے حاجت کی جگہ میں بات چیت کرنے سے ممانعت کی کوئی صریح نص نہیں ہے۔" ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (171 / 11) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔
واللہ اعلم