اول:
جمہور علمائے کرام جن میں چاروں امام بھی شامل ہیں، اس بات کے قائل ہیں کہ وضو پر وضو کرنا (یعنی پہلا وضو برقرار ہوتے ہوئے نیا وضو کرنا) سنت اور مستحب ہے؛ اس پر کئی احادیث دلالت کرتی ہیں، جن میں سے ایک حدیث صحیح بخاری (حدیث: 214) میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: "نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہر نماز کے وقت وضو فرمایا کرتے تھے"۔ ترمذی (حدیث: 58) میں مزید الفاظ ہیں: "چاہے پہلے سے وضو میں ہوتے یا نہ ہوتے"۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ہمارے فقہائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ وضو پر وضو کرنا مستحب ہے، یعنی آدمی پہلے سے با وضو ہو اور وضو ٹوٹے بغیر دوبارہ وضو کرے۔" ختم شد
دیکھیں: "المجموع" (1/495) ، المغنی (1/96) اور الموسوعة الفقهية (10/155)۔
دوم:
علمائے کرام کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ وضو کی تجدید کب مستحب ہے؟
امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا: "ہمارے فقہی مذہب میں صحیح قول یہ ہے کہ اگر انسان نے پہلے وضو کے ساتھ فرض یا نفل نماز ادا کر لی ہو، تو اب نئے وضو کی تجدید مستحب ہے۔" ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" میں لکھتے ہیں:
’’ وضو کی تجدید اس وقت سنت ہے جب پچھلے وضو سے نماز ادا کی جا چکی ہو، تو نئی نماز کے لیے نیا وضو مستحب ہے۔ مثال کے طور پر: اگر کسی نے ظہر کے لیے وضو کیا اور نماز ادا کر لی، اور پھر عصر کا وقت آیا اور وہ ابھی تک با وضو ہے، تو ایسے میں عصر کے لیے نیا وضو کرنا مستحب ہے۔ لیکن اگر کسی نے عصر کی نماز کے وقت سے پہلے وضو کیا اور اس وضو سے کوئی نماز ادا نہیں کی، اور پھر اذان کے بعد اسی وضو کی تجدید کی، تو ایسا کرنا مشروع نہیں؛ کیونکہ اس نے پہلے وضو سے کوئی نماز ادا نہیں کی تھی۔ ‘‘ ختم شد
واللہ اعلم