اول:
مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ، چاہے وہ کام کی جگہ ہو یا تعلیم کا میدان یا کوئی اور صورت ہر حال میں حرام ہے، اور اس بارے میں دلائل پہلے سوال نمبر [1200] اور [50398] کے جواب میں بیان کیے جا چکے ہیں۔
اور آپ کا جس حدیث کی طرف اشارہ ہے اسے امام احمد (حدیث: 2964) اور ابو داود (حدیث: 3488) نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ : "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کعبہ کے رکن کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا، آپ نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور مسکرائے، پھر فرمایا: (اللہ تعالیٰ یہودیوں پر تین بار لعنت کرے، اللہ نے ان پر چربی کو حرام کیا تو انہوں نے اسے بیچ ڈالا، اور اس کی قیمت کھائی۔ یقیناً جب اللہ کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کرتا ہے، تو اس کی قیمت بھی ان پر حرام کر دیتا ہے)"
مسند احمد میں الفاظ کچھ یوں ہیں: "جب اللہ کسی قوم پر کسی چیز کو حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت بھی ان پر حرام کر دیتا ہے۔"
اسی حدیث کو ابن حبان (حدیث: 4938) اور دارقطنی نے بھی روایت کیا ہے، اور وہاں الفاظ یہ ہیں: "اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتا ہے۔" شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "صحیح ابو داود" میں صحیح قرار دیا ہے۔
یہ حدیث ان لوگوں پر صادق آتی ہے جو بذاتِ خود اختلاط کو بطور سروس یا پیشہ انجام دیتے ہیں اور اسی پر اجرت لیتے ہیں۔
لیکن جو شخص جائز کام انجام دے رہا ہو، مگر کام کی جگہ پر اختلاط پایا جاتا ہو، تو اس کی اجرت اس کام پر ہے نہ کہ اختلاط پر، لہٰذا اس اجرت کو حرام قرار نہیں دیا جائے گا۔
تاہم اختلاط فی نفسہ حرام ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ کسی ایسے کام کو تلاش کرے جس میں وہ اس حرام عمل سے محفوظ رہ سکے۔ اور اگر اُسے متبادل کام نہ مل سکے، تو پھر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اپنی نگاہ نیچی رکھے، خلوت سے بچے، خواتین سے مصافحہ نہ کرے، اور ان سے گفتگو کرنے سے بھی حتی الوسع پرہیز کرے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسانی اور راستہ پیدا فرما دے۔
مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر [69859] کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم