جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

تجارتى مراكز اور سپر ماركيٹوں ميں انعامات كى قرعہ اندازى كا حكم

97648

تاریخ اشاعت : 26-08-2008

مشاہدات : 5787

سوال

بڑى بڑى سپر ماركيٹوں كى جانب سے انعامى سكيم كے كوپن كى قرعہ اندازى كى جاتى ہے كيا يہ حلال ہے يا حرام ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

تجارتى كمپنيوں اور سپر ماركيٹوں اور اداروں كى جانب سے قرعہ اندازى پر انعامات دينے كے حكم كے بارہ ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، بعض علماء كرام اسےحرام قرار ديتے ہيں، اور بعض نے اسے دو شرطوں كے ساتھ جائز قرار ديا ہے.

پہلى شرط:

ان سپر ماركيٹوں اور اداروں كى جانب سے فروخت كردہ مال كى قيمت ميں اضافہ نہ كيا گيا ہو.

دوسرى شرط:

خريدار اپنى ضرورت و حاجت كى بنا پر وہ سامان خريدے، نہ كہ انعامى سكيم ميں شريك ہونے كى خاطر.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء اسے ممنوع قرار ديتے ہيں، اور شروط كے ساتھ جواز كا قول شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ہمارے ہاں يہاں كويت ميں كئى طرح كى فروخت ہو رہى ہے، تاجر اپنا مال پيش كرتا ہے، اور اس كى خريدارى كرنے والے كو خريدارى كى قيمت كے حساب سے كوپن ديتا ہے، اور وہ كوپن انعامى سكيم ميں شامل كيے جاتے ہيں، پھر بعد ميں قرعہ اندازى كى جاتى ہے، بعض لوگ انعام حاصل كرنے ميں كامياب ہو جاتے ہيں، اور تاجر اسے وہ انعام دے ديتا ہے، اس كا حكم كيا ہے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" يہ فروخت كى ايك قسم ہے، ہم بائع اور مشترى يعنى فروخت كرنے والے اور خريدار كو مخاطب كرتے ہوئے بائع كو يہ كہينگے: كيا آپ نے اس انعام كى بنا پر قيمت ميں اضافہ كيا ہے يا نہيں ؟

اگر تو نے قيمت ميں اضافہ كيا ہے تو آپ كے ليے يہ جائز نہيں؛ كيونكہ جب قيمت ميں اضافہ كر ديا گيا اور لوگ اسے خريد ليں تو يا تو يہ نقصان اٹھانے والے بن جائينگے، يا پھر كچھ حاصل كرنے والے، يا تو انہيں نفع ہو گا يا پھر نقصان، مثلا اگر بازار ميں اس چيز كى قيمت دس ريال ہے، اور وہ انعام كى بنا پر اس كى قيمت بارہ ريال كر دي تو يہ جائز نہيں؛ اس ليے كہ بارہ ريال ميں خريدنے والا يا تو دس ريال سے زيادہ كا خسارہ اٹھائيگا، يا پھر وہ انعام كے ساتھ كئى گناہ منافع حاصل كريگا، تو يہ جوا اور قمار بازى .

اگر فروخت كرنے والا يہ كہے كہ ميں لوگوں كے ريٹ كے مطابق ہى فروخت كر رہا ہوں، نہ ريٹ زيادہ كيا ہے اور نہ ہى كم، تو اسے حق حاصل ہے كہ وہ لوگوں كو اپنى اشياء خريدنے پر ابھارنے كے ليے انعام ركھے.

اس كے بعد ہم خريدار كى جانب متوجہ ہو كر اسے كہتے ہيں كہ:

كيا آپ نے يہ سامان اپنى ضرورت كى بنا پر خريدا ہے اگر انعام نہ بھى ہوتا تو كيا آپ نے اسے خريدنا ہى تھا يا نہيں، يا كہ آپ نے صرف انعام كى بنا پر خريدا ہے ؟

اگر اس كا جواب پہلا ہو تو يعنى اپنى ضرورت كى بنا پر خريدا ہے، تو ہم كہينگے آپ اس سے خريديں يا كسى اور سے اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ جب ريٹ ماركيٹ كے مطابق ہے اور آپ يہ چيز اپنى ضرورت كے ليے خريد رہے ہيں، تو پھر اس وقت آپ يا تو حاصل كرنے والے ہونگے، يا پھر سالم رہينگے يعنى آپ كا نقصان نہيں ہو گا.

ليكن اگر وہ كہتا ہے كہ ميں خريد تو رہا ہوں، ليكن ميں سامان نہيں چاہتا، بلكہ ميں تو انعام حاصل كرنے كے ليے خريد رہا ہوں.

ہم اسے كہينگے: يہ مال ضائع كرنے ميں شامل ہوتا ہے؛ كيونكہ آپ نہيں جانتے آيا آپ كو انعام ملے گا يا نہيں.

مجھ تك يہ بات پہنچى ہے كہ بعض لوگ دودھ كے ڈبے خريدتے ہيں، حالانكہ انہيں اس كى ضرورت نہيں ہوتى، وہ خريد كر اسے انڈيل ديتے ہيں، اس ليے خريدتے ہيں كہ شائد انہيں انعام مل جائے، تو يہ مال ضائع كرنے ميں شامل ہوتا ہے، صحيح حديث سے ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مال ضائع كرنے سے منع فرمايا ہے.

ايك تيسرى چيز باقى ہے وہ يہ كہ:

اگر كوئى كہنے والا يہ كہے: ہو سكتا ہے يہ معاملہ دوسرے فروجت كنندگان كو نقصان دے؛ كيونكہ جب اس فروخت كرنے والے نے گاہكوں كے ليے انعام كا اعلان كيا اور اس كا ريٹ بھى ماركيٹ ريٹ كے مطابق ہے تو سب گاہك اس كى جانب ہى جائينگے، اور دوسرے تاجر كساد بازارى كا شكار ہو جائينگے، تو اس طرح دوسروں كو نقصان ہو گا.

تو اس سلسلہ ميں ہم يہ كہينگے:

يہ معاملہ ملك پر لوٹتا ہے، اس ليے حكومت كو چاہيے كہ وہ اس مسئلہ ميں دخل اندازى كرے، جب حكومت ديكھے كہ يہ چيز بازار اور ماركيٹ ميں اضطراب پيدا كر رہى ہے اگر اس كو روكنے ميں كوئى مصلحت ہو تو حكومت كو اس سے منع كرنے كا حق حاصل ہے، يا پھر جب حكومت ديكھے كہ يہ ماركيٹ كے ساتھ كھيل تماشا ہے تو حكومت ذمہ داران كو اس سے روكنا ضرورى ہے " انتہى.

ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 49 ) سوال نمبر ( 5 ).

سوال نمبر ( 22862 ) كے جواب ميں آپ كو اس مسئلہ كى تفصيل اور اس ميں اختلاف اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كے قول كى ترجيح مل سكتى ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب