جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

گھر ميں اكيلے شخص كے ليے نماز عيد

سوال

كيا ميرے ليے گھر ميں اكيلے نماز عيد ادا كرنى جائز ہے كيونكہ ميں بيماى كى بنا پر مسجد نہيں جا سكتا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق نماز عيد ہر استطاعت ركھنے والے شخص پر فرض عين ہے جيسا كہ سوال نمبر ( 48983 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے.

اور اگر آپ بيماى كى بنا پر نماز عيد كے ليے نہيں جا سكتے تو آپ پر كوئى گناہ نہيں، اور كيا آپ كے ليے گھر ميں ايسا كرنا جائز ہے ؟

اس ميں فقھاء كا اختلاف ہے، جمہور كے ہاں مشروع ہے، ليكن حنفيہ اس كے خلاف ہيں.

مزنى نے امام شافعى رحمہ اللہ سے نقل كيا ہے كہ:

" اكيلا گھر ميں نماز عيد ادا كريگا، اور مسافر اور غلام اور عورت بھى " انتہى

ديكھيں: مختصر الام ( 8 / 125 ).

اور الخرشى المالكى كہتے ہيں:

" جس كى نماز عيد امام كے ساتھ رہ جائے تو وہ اسے ادا كرے.

اور آيا وہ جماعت كے ساتھ ادا كرے يا عليحدہ عليحدہ ؟

اس ميں دو قول ہيں " انتہى

ديكھيں: شرح الخرشى ( 2 / 104 ).

اور المرداوى حنبلى رحمہ اللہ نے الانصاف كہتے ہيں:

" اور اگر اس كى نماز ( يعنى نماز عيد ) رہ جائے تو اس كے ليے اسى طرح ( جس طرح امام ادا كرتا ہے ) نماز ادا كرنا مستحب ہے " انتہى

اور ابن قدامہ حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اسے اختيار ہے كہ اگر چاہے تو وہ اكيلا نماز ادا كر لے اور اگر چاہے تو جماعت كے ساتھ " انتہى

اور الدر المختار مع حاشيۃ ابن عابدين حنفى ميں ہے:

" اگر اس كى نماز امام كے ساتھ رہ جائے تو وہ اكيلا ادا كريگا " انتہى

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے احناف كا قول اختيار كيا ہے، اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى اسے راجح قرار ديا ہے"

ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 156 ).

اور فتاوى اللجنۃ الدائمۃ ميں درج ہے:

" نماز عيد فرض كفايہ ہے؛ اگر كچھ لوگ ادا كريں جو كافى ہوں تو باقى افراد سے ساقط ہو جائيگى.

اور جس كى نماز رہ جائے اور اس كى قضاء كرنا چاہے تو اس كے ليے مستحب ہے، اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب تم نماز كے ليے آؤ تو تم وقار اور سكون سے آؤ جو تمہيں مل جائے اسے ادا كرو، اور جو رہ جائے اس كى قضاء كرو "

اور انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:

" جب ان كى امام كے ساتھ نماز عيد رہ جاتى تو وہ اپنے اہل و عيال اور غلاموں كو جمع كيا پھر ان كے غلام عبد اللہ بن ابى عتبہ اٹھ كر انہيں دو ركعت پڑھاتے اور ان ميں تكبريں كہتے.

جو شخص عيد كے روز آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو وہ خطبہ سنے اور پھر اس كے بعد نماز ادا كرے تا كہ دونوں مصلحتوں كو جمع كر سكے"

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے. انتہى

مستقل فتوى اينڈ علمى ريسرچ كميٹى.

الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 306 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات