جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

قبر پر دعا كرتے وقت قبر كى طرف رخ كرنا

93858

تاریخ اشاعت : 13-03-2007

مشاہدات : 10630

سوال

كيا قبر والے كے ليے دعا كرتے وقت قبر كى طرف رخ كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہمارے ليے دو متشابہ معاملوں ميں فرق كرنا ضرورى ہے:

پہلا معاملہ يہ ہے كہ: اپنے ليے دعا كرتے وقت بطور تبرك اور دعا كى قبوليت اور قرب كا اعتقاد ركھتے ہوئے قبر كا رخ اور استقبال كرنے كى كوشش كرنا، بلا شك يہ عمل نيا ايجاد كردہ اور بدعت ہے، اور اس غلو ميں شامل ہوتا ہے جس سے شريعت اسلاميہ نے منع كيا ہے، جب قبر والے سے اپنى حاجت پورى كروانے كى درخواست كى جائى اور اس سے مدد مانگى جائے تو يہ شرك كا باعث بنےگا.

ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قبر كے پاس دعا كرنے اور اسے وسيلہ بنانے يا اس سے سفارش كروانے كى بنا پر قبروں كى زياردت كرنے كى شريعت اسلاميہ ميں اصلا كوئى دليل نہيں ملتى، اسى ليے صحابہ كرام اور مسلمان آئمہ كرام كا طريقہ تھا كہ جب كوئى بندہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابى ابو بكر اور عمر رضى اللہ تعالى عنہم پر سلام پڑھتا تو دعا كرتے وقت قبلہ رخ ہو كر دعا كرتا، نہ كہ حجرہ شريف كى طرف رخ كر كے.

ميرے علم ميں تو يہ بات نہيں كہ آئمہ كرام كا اس ميں كوئى اختلاف ہو كہ دعا كرتے وقت قبلہ رخ ہونا سنت ہے، نہ كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر كى طرف رخ كر كے دعا كرنا " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 27 / 165 ).

اور ابن تيميہ رحمہ اللہ " افتضاء صراط المستقيم " ميں رقمطراز ہيں:

" آئمہ كرام نے اس سلسلے ميں جو ذكر كيا ہے شائد انہوں نے قبر كى جانب نماز پڑھنے كى كراہت سے اخذ كرتے ہوئے ذكر كيا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كى نہى ملتى ہے، جيسا كہ بيان كيا جا چكا ہے؛ اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبر كو مسجد اور سجدہ گاہ يا قبلہ بنانے سے منع فرمايا اور حكم ديا ہے، تو علماء نے يہ حكم ديا كہ جس طرح قبر كى طرف رخ كر كے نماز ادا كرنى جائز نہيں، اسى طرح قبر كى جانب رخ كر كے دعا كرنے كى كوشش بھى نہيں كرنى چاہيے.

امام مالك رحمہ اللہ " المبسوط " ميں بيان كرتے ہيں:

ميرے رائے تو يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر كى طرف رخ كر كے دعا كرنى صحيح نہيں، ليكن انسان كو چاہيے كہ وہ سلام كر كے چلا جائے.

اور يہ اصل كام اب تك چل رہا ہے، اس ليے دعا كرنے والے كے ليے اسى طرف رخ كر كے دعا كرنا مستحب ہے جس طرف رخ كر كے نماز ادا كرنے كى اجازت ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ جب مسلمان شخص كو مشرق يا كسى اور جانب رخ كر كے نماز ادا كرنے سے منع كيا گيا ہے تو اسے دعا كرتے وقت بھى اس طرف رخ كرنے كى كوشش كرنے سے منع كيا گيا ہے.

اور اور كچھ لوگ وہ بھى ہيں جو دعا كرتے وقت اس جانب رخ كرنے كى كوشش كرتے ہيں جس طرف اس كا نيك صالح اور بڑا ہو، چاہے وہ مشرق كى طرف ہو يا كسى اور جانب، جو كہ كھلى گمراہى اور واضح شرك ہے " انتہى.

ديكھيں: اقتضاء صراط المستقيم: ( 364 ).

اور جب مسلمان شخص دعا كے ساتھ اپنے اللہ كى عبادت كرتا ہے تو اس كے ليے اس قبلہ كى طرف رخ كرنا مستحب ہے جس كى تعظيم كا اللہ تعالى نے ہميں حكم ديا ہے، نہ كہ بشر و انسانوں كى قبروں كى طرف جو اپنے نفع و نقصان كے بھى مالك نہيں تو وہ كسى كو كيا دينگے؟.

حنبلى كتاب " كشاف القناع " ميں لكھا ہے:

" اور دعا كرنے والا شخص قبلہ رخ ہو كر دعا كرے كيونكہ سب سے بہترين مجلس وہ ہے جس ميں قبلہ رخ ہوا جائے " انتہى.

ديكھيں: كشاف القناع ( 1 / 367 ).

اور شافعى حضرات كى كتاب " تحفۃ المحتاج " كے حاشيہ ميں بھى اسى طرح كى كلام ہے.

ديكھيں: تحفۃ المحتاج ( 2 / 105 ).

اور ابن تيميہ رحمہ اللہ " نقض التاسيس " ميں لكھتے ہيں:

" مسلمان اس پر متفق ہيں كہ دعا كرنے والے كے ليے دعا كرتے وقت جس قبلہ كى طرف رخ كرنا مشروع ہے يہ وہى قبلہ ہے جس طرف رخ كر كے نماز ادا كرنا مشروع ہے " انتہى.

ديكھيں: نقض التاسيس ( 2 / 452 ).

دوم:

اور رہا مسئلہ قبر كى زيارت كرتے وقت ميت كے ليے دعا اور استغفار كرنا، جيسا كہ لوگ اپنے فوت شدگان كى قبروں كى زيارت كرتے وقت كرتے ہيں، تو اس ميں اس وقت دعا ميں قبر كى طرف رخ كرنے والے پر كوئى حرج نہيں، كيونكہ اس سے وہ قبر سے تبرك يا اس كى طرف رخ كر كے تعظيم نہيں كرنا چاہتا، بلكہ وہ تو ميت والى جگہ كے قريب ہو كر اس كے ليے دعا كرنا چاہتا ہے.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا ميت كے ليے دعا كرتے وقت قبر كى طرف رخ كرنا ممنوع ہے ؟

شيخ رحمہ للہ كا جواب تھا:

" اس سے منع نہيں كيا جائيگا؛ بلكہ ميت كے ليے دعا كى جائيگى چاہے قبلہ رخ ہو يا قبر كى طرف رخ كيا جائے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم دفن كرنے كے بعد قبر كے پاس كھڑے ہوئے اور فرمايا:

" اپنے بھائى كے ليے دعائے استغفار كرو، اور اس كے ليے ثابت قدمى كا سوال كرو، كيونكہ اب اس سے سوال كيا جا رہا ہے "

اسے بخارى نے روايت كيا ہے.

يہاں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبلہ رخ ہونے كا نہيں كہا، تو يہ سب جائز ہے، چاہے قبلہ رخ ہوا جائے يا قبر كى طرف رخ كيا جائے، صحابہ كرام ميت كے ليے قبر كے ارد گرد كھڑے ہو كر دعا كيا كرتے تھے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 13 / 338 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب