جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

عورت كے جج بننے كا حكم

71338

تاریخ اشاعت : 10-11-2007

مشاہدات : 9297

سوال

كيا عورت كے ليے جج اور قاضى بننا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جمہور علماء كرام كے ہاں عورت كا قضا كے منصب پر فائز ہونا جائز نہيں، اور اگر اسے قضا كا منصب دے ديا جائے تو اسے قاضى بنانے والا گنہگار ہوگا، اور يہ باطل ہو جائيگا، اور سب احكام ميں اس عورت كا حكم نافذ نہيں ہو گا، مالكيہ، شافعيہ، حنابلہ اور بعض احناف كا مسلك يہى ہے.

ديكھيں: بدايۃ المجتھد ( 2 / 531 ) المجموع ( 20 / 127 ) المغنى ( 11 / 350 ).

ان علماء نے كئى ايك دلائل سے استدلال كيا ہے جنہيں ذيل ميں درج كيا جاتا ہے:

1 - اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

مرد عورتوں پر حاكم ہيں اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں النساء ( 34 ).

اس آيت ميں يہ بيان ہوا ہے كہ مرد عورت كا قيم يعنى اس كا نگران اور ذمہ دار ہے، يعنى دوسرے معنوں ميں وہ عورت كا رئيس اور حاكم ہے، تو يہ آيت عورت كى عدم ولايت اور عدم قضاء پر دلالت كرتى ہے، وگرنہ عورتوں كو مردوں پر نگرانى اور رياست حاصل ہوتى، جو كہ اس آيت كے برعكس ہے.

2- اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اورر مردوں كو ان ( عورتوں ) پر فضيلت حاصل ہے البقرۃ ( 228 ).

تو اللہ تعالى نے مردوں كو عورتوں پر اضافى درجہ اور فضيلت عطا فرمائى ہے، تو اس طرح عورت كا قضا كے منصب پر فائز ہونا اس درجہ اور فضيلت كے منافى ہے جو اللہ تعالى نے اس آيت ميں مردوں كے ليے ثابت كى ہے، كيونكہ قاضى كو فيصلہ كے ليے آنے والے دونوں فريقوں پر درجہ اور قضيلت حاصل ہونى چاہيے تا كہ وہ ان دونوں كے مابين فيصلہ كر سكے.

3 - ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ خبر ملى كہ اہل فارس نے كسرى كى بيٹى كو اپنا حكمران بنا ليا ہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس وقت فرمايا:

" وہ قوم ہرگز اور كبھى كامياب نہيں ہو سكتى جس نے اپنے معاملات اور امور عورت كے سپرد كر ديے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4425 ).

فقھاء كرام نے اس آيت سے استدلال كيا ہے كہ عورت كا قضا كے منصب پر فائز ہونا جائز نہيں، كيونكہ ناكامى ايك نقصان اور ضرر ہے جس كے اسباب سے اجتناب كرنا ضرورى ہے، اور يہ حديث ہر قسم كے منصب اور ولايت ميں عام ہے، اس ليے عورت كو كسى بھى قسم كے امور كى ذمہ دارى دينا جائز نہيں، اس ليے كہ لفظ " امرہم " عام ہے، اور يہ مسلمانوں كے عام معاملات اور سب امور كو شامل ہے.

امام شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" فلاح و كاميابى كى نفى كے بعد كوئى اور شديد اور سخت وعيد باقى نہيں رہتى، اور امور و معاملات ميں سب سے اہم اور اونچا معاملہ اللہ تعالى كے حكم كے مطابق فيصلہ كرنا ہے، تو يہ بالاولى اس ميں شامل ہو گا " انتہى.

ديكھيں: السيل الجرار ( 4 / 273 ).

ازھر شريف كى فتوى كميٹى كا كہنا ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اس حديث سے مقصد صرف اس قوم كى ناكامى اور عدم كاميابى كى خبر ہى دينا نہيں جس نے اپنے معاملات عورت كے سپرد كر دے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا كام اور ڈيوٹى يہ ہے كہ وہ اپنى امت كے ليے وہ كچھ بيان كريں جو ان كے ليے جائز ہے، تا كہ امت اس پر عمل كر كے خير و فلاح اور كاميابى حاصل كر سكے، اور جو جائز نہيں وہ اس سے اجتناب كر كے شر و خسارہ سے بچ سكے، بلكہ اس حديث سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا مقصد يہ تھا كہ وہ اپنے معاملات ميں سے كچھ بھى عورت كے سپرد كرنے ميں فارسيوں كے پيچھے نہ چل نكليں.

اور ايسا اسلوب لائے جس ميں يہ بيان ہوا ہے كہ وہ قوم كو ان كى فلاح و كاميابى اور ان كے ہر قسم كے معاملات كا منظم ہونا دين كى اطاعت و فرمانبردارى ميں ہے، اور يہ قطعى اسلوب ہے كہ اپنے معاملات عورت كے سپرد كرنے ميں ناكامى و مامرادى لازم ہے.

اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ حديث سے جو ممانعت ثابت ہوتى ہے وہ ہر دور ميں ہر قسم كى عورت كو اپنے عام معاملات كى ذمہ دار بنانے كى ممانعت ثابت كرتى ہے، اور يہ حديث كے صيغے اور مفہوم سے يہى عموم ثابت ہوتا ہے " انتہى.

4 - عورت كى طبيعت اور اس كى خلقت ہى ولايت عامہ يعنى عام امور كى ذمہ دارى عورت كو دينے ميں مانع ہے.

ازھر شريف كى فتوى كميٹى نے اس حديث سے استدلال ذكر كرنے كے بعد درج ذيل كلمات كہے ہيں:

" اور حديث سے يہ حكم ثابت ہوتا ہے كہ: عورت كو عمومى ولايت نہ دينے كا حكم تعبدى نہيں جس كا مقصد صرف اطاعت و فرمانبردارى ہو اور اس كى حكمت كا علم ہى نہ ہو، بلكہ يہ تو ان احكام ميں شامل ہوتا ہے جس كى معانى اور اعتبار كے لحاظ سے كچھ علتيں ہيں، جن سے انسان كى ان دونوں قسموں يعنى مرد و عورت كے مابين فرق سے واقف حضرات جاہل نہيں.

اس ليے كہ يہ حكم انوثيت كے ماوراء ميں كسى چيز سے معلق نہيں جس كا حديث ميں ( امراۃ ) يعنى عورت كے كلمہ سے بطور اس كا عنوان آيا ہے، تو اس طرح صرف اكيلى انوثيت ہى اس كى علت نہيں ... بلا شبہ پيدائشى طور پر خلقت كے اعتبار سے ہى عورت كى طبيعت ميں ايسے امور شامل ہيں جو اس كى خلقت كے مناسب ہيں جن كے ليے وہ پيدا كى گئى ہے، اور وہ امور ايك ممتا، اور بچے كى پرورش اور تربيت كرنا ہيں.

اور يہ چيز اسے بہت متاثر كرتى ہے، اور اسے نرمى و عاطفت كى دعوت ديتى ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ عورت كو طبعى طور پر كچھ ايسے عوارض لاحق ہيں جن كا انہيں ہر ماہ اور برس ہا برس سامنا كرنا پڑتا ہے، جس كى بنا پر وہ معنوى طور پر كمزور ہو جاتى ہے، اور كسى مسئلہ ميں رائے اخيتار كرنے كى عزيمت اور اس رائے پر پخٹگى سے جم جانے ميں كمزورى آجاتى ہے، اور اس كى راہ ميں آنے والى مشكلات ميں بھى ٹھر نہيں سكتى، اور يہ ايسى حالت ہے جس كا عورت خود بھى انكار نہيں كرتى.

اور ہم اس كے ليے ان واقعى مثالوں كے محتاج نہيں جو عورت كے سب حالات اور زمانے ميں اس كى عاطفت و نرمى كے ساتھ ساتھ شدت انفعال اور ميلان يعنى شديد متاثر و مائل ہونے پر دلالت كرتى ہوں " انتہى.

5 - اور اس ليے بھى كہ قاضى نے مردوں كى مجلسوں اور ميٹنگوں ميں حاضر ہونا ہوتا ہے، اور فريقين اور گواہوں كے ساتھ ميل جول ركھنے كى ضرروت ہوتى ہے، اور بعض اوقات تو اسے ان كے ساتھ عليحدگى اور خلوت بھى كرنا پڑتى ہے، اور شريعت اسلاميہ نے عورت كى عزت و شرف كى حفاظت كى اور اسے بچا كر ركھا ہے كہ خراب اورغلط قسم كے لوگ اسے اپنا كھيل نہ بنائيں، اور عورت كو شريعت نے حكم ديا ہے كہ وہ اپنے گھر ميں ٹكى رہے، اور صرف ضرورت كے وقت ہى گھر سے نكل سكتى ہے.

اور پھر شريعت نے اسے مردوں كے ساتھ ميل جول ركھنے اور ان كے ساتھ عليحدگى اور خلوت كرنے سے منع كيا ہے، كيونكہ اس سے عورت كى عزت و شرف ضائع ہونے كا خدشہ ہے.

ديكھيں: ولايۃ المراۃ فى الفقہ الاسلامى صفحہ نمبر ( 217 - 250 ) رسالۃ الماجستير للباحث حافظ محمد انور.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب