منگل 21 شوال 1445 - 30 اپریل 2024
اردو

کیا دکان میں موجود مالِ تجارت، دکان کی ضرورت کی اشیا اور گم شدہ مالِ تجارت پر زکاۃ واجب ہے؟

سوال

میری دکان میں 80 ہزار ریال کا مال تجارت موجود ہے، اور اتنی ہی رقم دکان کے کھاتے داروں سے وصول کرنی ہے۔ چھ ماہ قبل دکان میں آگ لگ گئی تھی اور دکان کی تزئین و آرائش کا کام دوبارہ کیا گیا اور نیا سامان بھی ڈالا گیا جس کی کل لاگت 40 ہزار ریال ہے، ان میں سے 35 ہزار ریال ادھار لیے گئے ہیں جو کہ دکان ماہانہ قسطوں میں ادا کرے گی۔
تو میرا پہلا سوال یہ ہے کہ: کیا آگ لگنے سے پہلے جو مالِ تجارت موجود تھا اسے بھی زکاۃ کے لیے شمار کریں گے؟ (مکمل مالیت+ کھاتے داروں کے ذمے قرض) - (تزئین و آرائش کے اخراجات)

میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ: تزئین و آرائش اور نیا سامان جس رقم سے ڈالا گیا ہے اسے ابھی سال نہیں ہوا ہے تو کیا ہم اس کی زکاۃ بھی دیں گے یا دکان میں موجود مکمل مال کی قیمت کے ساتھ کھاتے داروں کے ذمے قرض دونوں کو ملا کر زکاۃ دیں گے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

دکانوں میں موجود سامان کی دو قسمیں ہوتی ہیں:

پہلی قسم: ایسا سامان جو برائے فروخت ہے جسے تجارت کی غرض سے رکھا گیا ہے چاہے وہ پراپرٹی کی شکل میں ہو یا غذائی اجناس یا کپڑے، یا کوئی اور قابل فروخت چیز۔

دوسری قسم: ایسا سامان جو دکان میں برائے فروخت نہیں ہے بلکہ وہ سامان مصنوعات کی تیاری، یا دکان میں استعمال کی غرض سے ہے مثلاً: فیکٹری کی مشینری، گاڑیاں، فرنیچر، کمپیوٹر اور فوٹو کاپی مشین وغیرہ ۔

پہلی قسم کے سامان کو "عروضِ تجارت" کہتے ہیں، اور اس میں زکاۃ واجب ہے، جبکہ دوسری قسم کو "عروض قُنیہ" کہتے ہیں انہیں "اصول ثابتہ" بھی کہتے ہیں، تو ان میں زکاۃ نہیں ہو گی۔

ہم اس عروض تجارت میں زکاۃ کی فرضیت اور اس کے نصاب سے متعلق تفصیلات پہلے سوال نمبر: (42072 ) میں ذکر کر آئے ہیں، وہاں یہ بھی واضح کیا ہے کہ اصول ثابتہ جو کہ فروخت کے لیے نہیں ہوتے ان پر زکاۃ نہیں ہوتی ۔

اسی طرح سوال نمبر: (22449 ) میں ہم یہ بھی واضح کر آئے ہیں کہ تجارتی مال کی زکاۃ اسی تجارتی مال کی شکل میں بھی ادا کی جا سکتی ہے، نیز زکاۃ رقم کی صورت میں ادا کرنا لازم نہیں ہے۔

عروضِ تجارت میں زکاۃ کا حساب کیسے لگائیں گے اس کی تفصیلات جاننے کے لیے سوال نمبر: (26236 ) کا جواب ملاحظہ کریں، یہاں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ سامانِ تجارت کی قیمت فروخت معتبر ہو گی قیمت خرید معتبر نہیں ہو گی۔

خلاصہ یہ ہے کہ:
جس وقت آپ کی دکان کی زکاۃ کا وقت آئے تو پھر آپ اپنی دکان میں موجود مالِ تجارت کا مکمل حساب لگائیں، اس کے ساتھ آپ کے پاس نقدی کی شکل میں جو بھی رقم ہے اسے بھی شامل کریں، اور ایسے ہی مارکیٹ کے کھاتے داروں سے ایسی رقم بھی شامل کریں جن کے وصول ہونے کی امید ہے پھر ٹوٹل رقم سے چالیسواں حصہ زکاۃ ادا کریں۔

جبکہ ایسی مالی رقوم جو آپ نے لوگوں سے لینی ہیں لیکن ان کے ملنے کی امید نہیں ہے کہ مطلوبہ شخص یا تو ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے یا فقیر ہے تو پھر اس کی زکاۃ نہیں ہو گی ، اس پر زکاۃ تبھی ہو گی جب آپ اسے وصول کر لیں اور پھر وصولی کے دن سے سال پورا ہو جائے۔ تاہم اس حوالے سے محتاط عمل یہ ہے کہ آپ صرف ایک سال کی زکاۃ ادا کر دیں چاہے یہ رقم کئی سالوں بعد آپ کو وصول ہو۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (1346 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

آپ کے ذمہ جو قرض ہے وہ علمائے کرام کے صحیح ترین موقف کے مطابق آپ کے مال سے منہا نہیں ہو گا، اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (22426 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دکان میں آگ کی وجہ سے جل جانے والا سامان ، زکاۃ کے لیے شمار نہیں کیا جائے گا۔

آگ لگنے کے بعد دکان پر آپ نے جو سرمایہ لگایا ہے اگر تو وہ دکان کی تزئین و آرائش اور دکان کی دیگر ضروریات میں صرف ہو گیا ہے تو ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ اس میں زکاۃ نہیں ہے، اس لیے انہیں زکاۃ کے لیے دکان کے سامانِ تجارت میں شامل نہیں کیا جائے گا، اور اگر یہ سرمایہ برائے فروخت سامانِ تجارت میں صرف کیا گیا ہے تو پھر اگر یہ آپ نے دکان سے کما کر خریدا ہے تو یہ مجموعی مال میں شامل ہو گا چاہے ابھی تک اس کو سال پورا نہیں ہوا، لیکن اگر آپ نے یہ مال دکان سے کما کر نہیں بلکہ کسی اور ذریعے سے حاصل ہونے والے مال سے لیا ہے تو پھر اس سامانِ تجارت کا سال اس کے سرمائے کا سال ہو گا، چنانچہ اس سرمائے کے سال کے پورے ہونے پر اس کی آپ زکاۃ ادا کریں گے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو اس کا بہترین صلہ عطا فرمائے، اور آپ کو بہترین روزی عطا فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب