جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

بسا اوقات نماز کی ادائیگی میں سستی ہو جاتی ہے، اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟

سوال

میں نوجوان مسلمان ہوں ، میرا الحمد للہ، اللہ تعالی پر، اللہ کے رسولوں اور کتابوں پر پورا ایمان ہے، لیکن بسا اوقات نماز کی ادائیگی میں سستی کا شکار ہو جاتا ہوں، میں ایسا حل یا کوئی طریقہ جاننا چاہتا ہوں کہ میری نماز کے متعلق سستی ختم ہو جائے، واضح رہے کہ میں دلی طور پر  اپنی سستی ختم کرنا چاہتا ہوں لیکن شیطان کی چالیں مجھ پر بھائی پڑ جاتی  ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

جو شخص حقیقی معنوں میں اللہ تعالی پر ، اللہ کے رسولوں اور کتابوں پر ایمان رکھے، اور اس بات پر بھی پختہ ایمان ہو کہ نماز کی ادائیگی فرض ہے، اور نماز کلمہ شہادت کے بعد سب سے عظیم ترین عبادت ہے، تو اس سے نماز ترک کرنا یا نماز کی ادائیگی میں سستی کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا،  بلکہ ایسے شخص کو زندگی کا لطف اور زندگی سے مانوسیت بھی اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ اس عظیم عبادت کو انجام دے اور اس کی مکمل پابندی کرے۔

جس قدر بھی بندے کا ایمان زیادہ ہو گا، انسان اتنا ہی اللہ کے فریضے کا خیال رکھے گا، یہ خیال انسان کے ایمان کا حصہ ہے؛ اس لیے نماز کی پابندی کے لیے جو طریقہ کار اپنایا جا سکتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:

اول:

سب سے پہلے آپ ایمان محکم رکھیں کہ نماز فرض ہے اور یہ اسلام کا عظیم ترین رکن ہے، یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ تارک نماز کو شدید ترین وعید سنائی گئی ہے، علمائے کرام کے صحیح ترین موقف کے مطابق تارک نماز شخص اسلام سے خارج ہے؛ کیونکہ اس بارے میں بہت سے دلائل موجود ہیں، ان میں سے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان بھی ہے: (بیشک آدمی اور شرک و کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فاصلہ ہے) اس حدیث کو امام مسلم: (82)  نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (ہمارے اور ان کے درمیان نماز کا معاہدہ ہے، چنانچہ جس نے نماز کو ترک کیا تو اس نے کفر کیا) اس حدیث کو امام ترمذی: (2621) امام نسائی: (462) اور امام ابن ماجہ  نے: (1079)  نمبر حدیث کے تحت اسے روایت کیا ہے، نیز البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

دوم:

یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ نماز کو وقت ختم ہونے کے بعد تک مؤخر کرنا  کبیرہ گناہ ہے، فرمانِ  باری تعالی ہے:
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا
ترجمہ: پھر ان کے بعد ایسے اطاعت نہ کرنے والے پیدا ہوئے کہ انہوں نے نمازیں ضائع کر دیں اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، وہ عنقریب  "غی" میں پہنچ جائیں گے۔۔  [مريم: 59]

ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس آیت میں مذکور لفظ: " غَيًّا " کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ جہنم کی انتہائی گہری وادی ہے وہاں پر کھانے کو خبیث ترین چیزیں ملیں گی۔

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (4) الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ  ہلاکت ہے نمازیوں کے لیے [4] جو اپنی نمازوں میں سستی کرتے ہیں۔  [الماعون: 4، 5]

سوم:

آپ مسجد میں با جماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کریں، کسی ایک نماز کے متعلق بھی سستی کا شکار مت ہوں، یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ علمائے کرام کے صحیح ترین موقف کے مطابق نماز با جماعت فرض ہے، اس کے بہت سے دلائل ہیں، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص اذان سنے اور نماز ادا کرنے کے لیے نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ہے، الا کہ اس کا کوئی عذر ہو) اس حدیث کو ابن ماجہ : (793)  اور دار قطنی نے روایت کیا ہے، نیز حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے، اسی طرح البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابن ماجہ میں صحیح کہا ہے۔

اسی طرح صحیح مسلم : (653) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے مسجد لانے والا کوئی شخص نہیں ہے، تو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے گھر میں نماز ادا کرنے کی رخصت مانگی ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں رخصت دے دی، جب وہ شخص واپس ہو لیا تو آپ نے اسے دوبارہ بلایا اور پوچھا: کیا تم اذان سنتے ہو؟ تو اس نے کہا: جی ہاں! تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تو پھر نماز کے لیے آؤ۔
اس کے علاوہ بھی نماز با جماعت کے دلائل موجود ہیں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر:  (40113) کا جواب ملاحظہ کریں۔

چہارم:

نماز کی پابندی کرتے ہوئے نیت یہ رکھیں کہ آپ ان سات لوگوں میں شامل ہو جائیں جنہیں اللہ تعالی اپنا سایہ نصیب فرمائے گا، ان افراد میں ایک وہ بھی شامل ہے : "جس کا دل مسجدوں کے ساتھ لٹکا ہوا ہو" اس حدیث کو بخاری: (660) اور مسلم: (1031) نے روایت کیا ہے۔

پنجم:

آپ نماز با جماعت ادا کرتے ہوئے اجر عظیم کی امید رکھیں، جیسے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز گھر میں یا بازار میں پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ بہتر ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے ، پھر مسجد کی جانب چل پڑتا ہے اسے نماز کے سوا اور کوئی دوسرا کام گھر سے نہیں نکالتا، تو ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بڑھا دیا جاتا ہے اور ایک گناہ معاف کر دیا جاتا ہے ۔ پھر جب نماز سے فارغ ہو جائے تو فرشتے اس وقت تک اس کے لیے مسلسل دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہے۔ کہتے ہیں اے اللہ! اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ اے اللہ! اس پر رحم کر ۔ اور جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہو گویا تم نماز ہی میں مشغول ہوتے ہو۔)  اس حدیث کو بخاری: (647) اور مسلم: (649) نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح امام مسلم : (232)نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ کہتے ہیں: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جو شخص نماز کے لیے اچھی طرح وضو کرے، پھر فرض نماز کی ادائیگی کے لیے پیدل چل کر جائے ، پھر وہ لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرے یا با جماعت ادا کرے یا مسجد میں ادا کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے)"

ششم:

آپ نماز کی فضیلت کے بارے میں پڑھیں، اسی طرح نمازیں ضائع کرنے اور نمازوں کی ادائیگی میں سستی کی وجہ سے ملنے والے گناہوں کا مطالعہ کریں، اس کے متعلق ہم آپ کو الشیخ محمد بن اسماعیل مقدم کی کتاب: " الصلاة لماذا ؟" کا مطالعہ کریں، اور اسی طرح یہ الشیخ محمد حسین یعقوب کا خطاب: بعنوان: " لماذا لا تصلي ؟" بھی سنیں، ان شاء اللہ ان سے کافی فائدہ ہو گا۔

ہفتم:

آپ ایسے لوگوں کو دوست بنائیں جو نمازوں کا مکمل خیال رکھتے ہیں اور نماز کے تمام حقوق ادا کرتے ہیں، بے نمازیوں سے بالکل کنارہ کش ہو جائیں؛ کیونکہ صحبت کا اثر لازمی ہوتا ہے۔

ہشتم:

اپنی زندگی کے تمام گوشوں میں ہمہ قسم کے گناہوں اور نا فرمانیوں سے احتراز کریں، شرعی احکامات کی پابندی کریں، دوسروں سے تعلقات میں شرعی امور کی پابندی کریں، خصوصاً صنف مخالف سے تعلقات  میں خصوصی دھیان دیں؛ کیونکہ گناہ ایسی چیز ہیں کہ انسان کو سب سے زیادہ عبادت سے دور کرتی ہیں اور شیطان کی گرفت مضبوط کرتی ہیں۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ  اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اپنے نیک بندوں میں شامل فرمائے، اور اپنے چنیدہ مقرب بندوں میں جگہ دے۔
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب