جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

والد اپنی بیٹی کے ساتھ غلط کاری کرتا ہے، بیٹی کیا کرے؟

46886

تاریخ اشاعت : 19-01-2014

مشاہدات : 83700

سوال

میں 19 سالہ نوجوان لڑکی ہوں، میرا والد مجھے جنسی طور پر اپنی طرف مائل کرتا ہے، اس نے مجھ سے زبردستی کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے اپنے دفاع کیا، وہ اب بھی مجھے ہراساں کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، میں نے اپنی والدہ کو اس بارے میں بتلایا لیکن اس نے میری بات پر کان تک نہیں دھرا ، اور ایسے اظہار کرنے لگی جیسے اسے اس بارے میں پتہ ہی نہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اسے اس بات کا علم ہے، اور میں یہ سمجھتی ہوں کہ میری والدہ بھی اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتی، کیونکہ ہم ایک مغربی ملک میں رہتے ہیں، اور یہ ملک ہمارے لئے نیا ہے، اور مادّی اعتبار سے ہمارا انحصار والد پر ہی ہے، ہم بھی چاہتے ہیں کہ میرا والد ہمارے ساتھ ہی رہے۔
آپ مجھےکوئی طریقہ بتائیں جس سے اپنے والد کو روک سکوں، میں اس کے ساتھ کیسے پیش آؤں، تو کیا میں اس سے بالکل بات کرنا چھوڑ دوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہ کی قسم یہ بات آنسو بہانے کے قابل ہے، کیا اس حد تک لوگ گر چکے ہیں کہ نظامِ فطرت کو ہی درہم برہم کردیا ، اور ایک باپ اپنی بیٹی کے بارے میں اس حد تک گر گیا ہے؟!

اس باپ کے بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ وہ نفسیاتی اور جنسی مریض ہے، اسکو جلد از جلد قلب وعقل، دماغی اور جسمانی علاج کی شدید ضرورت ہے۔

اور آپ کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کریں، جس سے تمہارے والد کیلئے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے مواقع کم ہوجائیں گے، اس کیلئے آپ اور والد کبھی بھی گھر میں اکیلے مت رہیں، جب آپ اپنے کمرے میں چلی جائیں تو کمرے کا دروازہ بند کر لیں، اور اسے کسی صورت میں بھی اپنے کمرے میں داخل نہ ہونے دیں، اس سے تمہارے والد کو موقع نہیں ملے گا۔

اور اس عادت کو کلی طور پر ختم کرنے کیلئے باپ کا علاج یا اس کے کرتوت کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا پڑے گا، اس واسطے آپ کو بھی اس پر مرتب ہونے والے اثرات کیلئے تیار ہونا پڑے گا، کیونکہ اسکے کرتوت بیان کرنے سے آپکے خاندان پر بُرے اثرات مرتب ہونگے ، لیکن یہ اثرات موجودہ صورتِ حال سے کہیں بہتر ہونگے۔

ایک باپ کی طرف سے اس قسم کے کام صادر ہونے کی بھی کوئی وجہ ہے، اور اس قسم کے مسائل حل کرنے کیلئے اسباب کو مدّ نظر رکھنا ضروری ہے، تو ان اسباب میں سے کچھ تو باپ سے متعلقہ ہیں اور کچھ اسی لڑکی سے متعلق ہیں، اور کچھ اسباب جگہ اور وقت سے بھی متعلق ہیں۔

ذیل میں اس خطرناک انحراف کے کچھ اسباب ہیں:

1- ایمان کمزور ہوجائے، اللہ کا ڈر دل میں نہ رہے، اور یہ خیال ذہن سے مٹ جائے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔

2- مسلسل شراب نوشی، اور نشہ آور اشیاء کا استعمال۔

3- ذہنی یا نفسیاتی تناؤ کا شکار۔

4- جنسی فلمیں اور تصاویر دیکھنا۔

5- بے روز گاری اور گھر میں بیٹھے رہنا۔

6- لباس پہنتےہوئے بے احتیاطی سے کام لینا، کہ بہت سے لڑکیاں اپنے والد اور بھائیوں کے سامنے تنگ اور مختصر لباس زیب تن کرتی ہیں، حالانکہ یہ شرعی طوربالکل ممنوع ہے، اور اس سے نفسیاتی طور پر مریض میں چھپی ہوئی شہوت بھڑک اٹھتی ہے، اور اگر جنسی چینل بھی ساتھ میں دیکھے جاتے ہوں تو یہ جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔

7- کچھ معاملات میں تساہل سے کام لینا، مثلاً، ہونٹوں پر بوسہ لینا، یاشہوت سے چھونا، یا ایک ہی بیڈ پر ایک ہی لحاف میں باپ کے ساتھ یا بھائی کے ساتھ سونا، یہ بھی شرعاً منع ہے، بلکہ اس سے جذبات بھڑکتے ہیں۔

اگر ہم فطرت کے مخالف اس بری عادت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مذکورہ بالا اسباب کا خاتمہ کرنا ہوگاجن کی وجہ سے غیر فطری عادات جنم لیتی ہیں، اور اسکے لئے مندرجہ ذیل امور پر عمل کیا جاسکتا ہے:

1- اپنے خاندان میں اخلاقیات اور اچھی عادات اپنائی جائیں، اللہ کے بارے میں ایمان، خوفِ الہی، اور اس بات کو پختہ کیا جائے کہ اللہ دیکھ رہا ہے، اس کیلئے نمازوں اور دیگر نیک اعمال کی پابندی کی جائے، اور برے اخلاق اور ممنوعہ کاموں سے بچا جائے۔

2- کلی طور پر شہوت بھڑکانے والے پروگرام، اور قصے کہانیوں کو ترک کردیا جائے، نہ سنیں نہ پڑھیں ، اور نہ ہی دیکھیں۔

3- برے دوستوں کی محفلوں سے دور ہو جائیں، انہی محفلوں سے اس قسم کی عادات پیدا ہوتی ہیں۔

4- لڑکیوں کو شریعت کے مخالف تنگ، مختصر، اور شفاف لباس سے دور رکھا جائے، ایسے ہی شہوت سے ہاتھ نہ لگائیں، اور ہونٹوں پر پیار نہ دیں۔

5- کشادہ اور کھلی رہائش میں زندگی گزاریں کہ جہاں پر بیٹی اور باپ ایک کمرے اور ایک لحاف میں نہ ہوں۔

6- اس قسم کے حالات میں والدہ کا مثبت کردار ہونا چاہئےکہ اس قسم کی باتیں سن کر غفلت سے کام نہ لے، بلکہ اسے اِن معاملات کا پہلے سے ادراک ہونا چاہئے، اسلئے بیٹی کو تساہل سے کام نہ لینے دے اور نہ ہی اپنے خاوند کو اتنی آزادی دے کہ جو مرضی کرتا پھرے۔

7- سمجھ دار رشتہ داروں کو اس معاملے پر باخبر کیا جائے، تا کہ ان غیر اخلاقی معاملات کا سدّ باب کیا جاسکے، اگر اس سے بھی کوئی فرق نہ پڑے تو باپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔

8- ہم سائلہ بہن سے کہیں گے کہ اس معاملے میں سستی سے کام مت لے، بلکہ اس کے علاج کیلئے پختہ بنیادوں پر کوشش کرے، ہم اسے دعا کا بھی مشورہ دیتے ہیں، اور دعا کیلئے خاص اوقات مثلا رات کی آخری تہائی میں اپنے والد کیلئے دعا مانگے، کہ اللہ اسے ہدایت دے اور اس کےشر سے آپکو بچائے۔

9- اپنے والد کے ساتھ غیر فطری معاملات میں سستی سے کام لینا آپ پر حرام ہے اللہ نے جتنی آپکو طاقت دی ہے ، ساری آپ والد کو دور کرنے میں لگا دو، اور اپنی مدد کیلئے چیخ وپکار شروع کردو، چاہے تمہارے باپ کو رسوائی یا جیل میں جانا پڑے۔

10- اگر پھر بھی حالات ساز گار نہ ہوں ،تو آپ گھر میں نہ رہیں آپ نیک سیرت مسلمان بہنوں کے ساتھ رہائش اختیار کر لیں، یا اپنے ان رشتہ داروں کے ساتھ رہائش اختیار کر لیں جہاں شرعی طور پر آپکی رہائش کا بندو بست کیا جاسکے۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپکی اس پریشانی کو دور فرمائے، اور آپکو اس تنگی سے نکال دے، اور آپ کے والد کوہدایت دے، اور اس کے شر سے آپکو محفوظ فرمائے۔

اللہ ہی توفیق دینے والا ہے.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب