جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ميت كو صدقہ كا فائدہ پہنچنا

سوال

ميرے والد صاحب رحمہ اللہ تعالى فوت ہو چكے ہيں، ميں ان كى روح كے ليے صدقہ جاريہ كرنا چاہتا ہوں، ہو سكتا ہے اس بنا پر ان كى نيكيوں ميں اضافہ ہو اور رب تعالى كے ہاں ان كے درجات بلند ہوں، مثلا ميں ان كى جانب سے مسجد تعمير كروں، يا علمى كتاب طبع كروں جس سے مسلمانوں كو فائدہ پہنچے، ليكن ايك مولانا صاحب نے ہميں فتوى ديا ہے كہ اس كا كوئى فائدہ نہيں، كيونكہ يہ اس كے مال ميں سے نہيں ہے، صدقہ جاريہ كے ليے ضرورى ہے كہ وہ اس نے اپنى زندگى ميں وفات سے قبل اپنے مال سے كيا ہو، اور يہ اس كى وفات تك موجود اور جارى رہے، تو كيا مولانا صاحب كى يہ بات صحيح ہے؟
اور اگر صحيح نہيں تو مجھے فتوى ديں اور بتائيں كے ميرے ليے كونسا طريقہ افضل ہے جس سے ہمارے فوت شدہ والد كو فائدہ پہنچ سكتا ہے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اہل علم متفق ہيں كہ دعا و استغفار، اور صدقہ، اور حج كا ثواب ميت كو پہنچتا ہے.

دعا و استغفار كى دليل مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

اور وہ لوگ جو ان كے بعد آئے وہ يہ دعا كرتے ہيں اے ہمارے رب ہميں اور ہمارے ان بھائيوں كو بخش دے جو ايمان لانے ميں ہم سے سبقت لے چكے ہيں.

اور صحيحين ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اپنے بھائى كے ليے استغفار كرو، اور اس كے ليے ثابت قدمى كى دعا كرو، كيونكہ اس وقت اسے سوال كيا جا رہا ہے"

اور ايك دوسرى حديث ميں فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:

" جب تم نماز جنازہ ادا كرو تو ميت كے ليے اخلاص كے ساتھ دعا كرو"

اور ميت كى جانب سے صدقہ كى دليل صحيحين كى مندرجہ ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كي ميرى والدہ كو اچانك موت نے آليا، ميرا خيال ہے كہ اگر وہ بولتى تو صدقہ ضرور كرتى، اگر ميں اس كى جانب سے صدقہ كروں تو كيا اسے اجروثواب حاصل ہو گا؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جى ہاں"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1388 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1004 )

اور صحيح بخارى ميں ہى سعد بن عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ:

" ان كى غير موجودگى ميں ان كى والدہ فوت ہو گئى، تو انہوں نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى والدہ فوت ہو گئى ہے، اور ميں موجود نہيں تھا، اگر ميں اس كى طرف سے صدقہ كروں تو كيا اسے فائدہ ہو گا؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جى ہاں"

تو سعد رضى اللہ تعالى كہنے لگے: آپ گواہ رہيں كہ ميرا مخراف والا باغ اس كى طرف سے صدقہ ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2756 ).

اور ميت كى طرف سے حج كى دليل وہ حديث ہے جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك عورت نے حج كے بارہ سوال كيا تو رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مجھے يہ بتاؤ كہ اگر تمہارى والدہ كے ذمہ قرض ہوتا تو كيا تم اسے ادا كرتيں؟ تو وہ عورت كہنے لگى: جى ہاں،

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تو پھر اللہ تعالى كا قرض ادائيگى كا زيادہ حق ركھتا ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6699 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1148 )

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس سے آپ كو علم ہو گيا ہو گا كہ ميت كى جانب سے صدقہ كرنا اسے فائدہ ديتا ہے، اور اس كا ثواب اس تك پہنچتا ہے.

ميت كى طرف سے نماز كے متعلق ايك ضعيف حديث بيان كى جاتى ہے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم شريف كے مقدمہ ميں عبد اللہ بن مبارك رحمہ اللہ سے بيان كيا ہے كہ انہوں نے اس حديث كو ضعيف كہنے كے بعد كہا:

صدقہ ميں ( يعنى ميت كى جانب سے صدقہ ميں ) كوئى اختلاف نہيں ہے. اھـ

امام نووى رحمہ اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:

قولہ: ( صدقہ ميں كوئى اختلاف نہيں ) اس كا معنى يہ ہوا كہ يہ حديث قابل حجت نہيں، ليكن جو شخص اپنے والدين كے ساتھ حسن سلوك اور نيكى كرنا چاہتا ہے، تو وہ ان كى جانب سے صدقہ و خيرات كرے، كيونكہ صدقے كا اجروثواب ميت كو پہنچتا ہے، اور اسے اس سے فائدہ ہوتا ہے، اس ميں مسلمانوں كا كوئى اختلاف نہيں، اور صحيح بھى يہى ہے.

اور شافعى فقيہ قاضى القضاۃ ابو الحسن الماروردى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب الحاوى ميں اصحاب كلام سے جو يہ بيان كيا ہے كہ ميت كو ثواب نہيں پہنچتا يہ مذھب قطعا باطل اور واضح غلط اوركتاب وسنت كى نصوص اور اجماع كے خلاف ہے، اس كى طرف التفات نہيں كيا جا سكتا، اور نہ ہى اس پر اعتماد كيا جاسكتا ہے.

اور نماز، اور روزہ كے بارہ ميں امام شافعى رحمہ اللہ تعالى اور جمہور علماء كرام كا مسلك يہ ہے كہ ان دونوں كا ثواب ميت كو نہيں پہنچتا، ليكن اگر ميت كے ذمہ روزے واجب اور فرض ہوں تو اس كى طرف سے اس كا ولى يا جسے ولى اجازت دے قضاء ميں ركھے گا، اس ميں امام شافعى كے دو قول ہيں، ان ميں سے مشہور قول يہ ہے كہ يہ صحيح نہيں، اور ان دونوں اقوال ميں زيادہ صحيح قول يہ ہے كہ يہ صحيح ہے.

اور رہا قرآن مجيد كى تلاوت كا تو امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كا مشہور مذہب يہى ہے كہ اس كا ثواب ميت كو نہيں پہنچتا.

اور ان كے بعض ساتھيوں كا كہنا ہے كہ: اس كا ثواب ميت كو پہنچتا ہے، اور علماء كرام كى ايك جماعت كا مسلك يہ بھى ہے كہ ہر قسم كى عبادت روزہ نماز، اور تلاوت وغيرہ كا ميت كو ثواب پہنچتا ہے.....

پھر امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے بيان كيا ہے كہ: دعا اور صدقہ، اور حج كا ثواب بالاجماع ميت كو پہنچتا ہے. اھـ

كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.

اور تحفۃ المحتاج ميں كہتے ہيں:

" اور ميت كى جانب سے كيا گيا صدقہ اسے فائدہ ديتا ہے، اور اس ميں مصحف و قرآن مجيد وقف كرنا بھى شامل ہے، اور كنواں كھودنا، اور درخت لگانا، وہ ميت اپنى زندگى ميں يہ كام كرے يا اس كى موت كے بعد كوئى بھى اس كى جانب سے كرے. اھـ

ديكھيں: تحفۃ المحتاج ( 7 / 72 ).

اور آپ كے والد كو سب سے زيادہ نفع اور فائدہ دينے والا طريقہ يہ ہے كہ آپ كو چاہيے كہ اس كے ليے كثرت سے دعاء استغفار كرے، فرمان بارى تعالى ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور كہہ ديجيے اے ميرے رب ان دونوں ( والدين ) پر رحم كر جس طرح انہوں نے بچپن ميں ميرى پرورش كى.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب انسان مر جاتا ہے تو اس كے اعمال رك جاتے ہيں، مگر تين اعمال ايسے ہيں جو جارى رہتے ہيں، صدقہ جاريہ، يا فائدہ مند علم، يا نيك اور صالح اولاد جو اس كے ليے دعاء كرے"

صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 1631 ).

اور صدقہ كے متعلق يہ ہے كہ صدقات ميں سب سے بہتر اور افضل صدقہ جھاد فى سبيل اللہ ميں خرچ كرنا اور مساجد كى تعمير اور كتابيں چھپوا كر طلباء كى مدد و معاونت كرنا، يا انہيں اتنا مال دينا جس كے وہ محتاج اور ضرورتمند ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب