جمعہ 17 شوال 1445 - 26 اپریل 2024
اردو

بیٹھے ہوئے شخص کو اس کی جگہ سے کھڑا کرنے کا کیا حکم ہے؟

332040

تاریخ اشاعت : 21-01-2021

مشاہدات : 3880

سوال

مجھے اس حدیث کی ضرورت ہے جس میں ہے: جو کوئی شخص کسی مسلمان کو اس کی جگہ سے اٹھا کر دھتکار دے تو وہ جنت میں اپنی جگہ سے محروم ہو جاتا ہے۔

جواب کا خلاصہ

ہمیں ایسی کوئی حدیث نہیں ملی کہ جو کوئی شخص کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا دے تو وہ جنت میں اپنی جگہ سے محروم ہو جاتا ہے!! البتہ یہ ملتا ہے کہ جو شخص کسی کے بیٹھنے کی ایسی جگہ سے اٹھا دیتا ہے جہاں اس کے لیے بیٹھنا جائز بھی ہے؛ تو اس نے بیٹھے ہوئے شخص پر ظلم کیا، ایسے شخص کو فوری اپنے کیے پر معافی طلب کرنی چاہیے، وگرنہ وہ قیامت کے دن نیکیوں اور گناہوں کے تبادلے کی صورت میں قصاص دے گا۔

الحمد للہ.

اول: ہمیں ایسی کوئی حدیث نہیں ملی کہ جو شخص کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا دے تو وہ جنت میں اپنی جگہ سے محروم ہو گیا۔

اس مفہوم کی ہمیں کوئی حدیث نہیں ملی کہ مذکورہ کام کرنے والا شخص جنت میں اپنے ٹھکانے سے محروم ہو گیا!!

دوم: بیٹھے ہوئے شخص کو اس کی جگہ سے کھڑا کرنے کا حکم

بیٹھنے کے لیے مباح جگہ پر پہلے پہنچنے والا شخص اس جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ حق رکھتا ہے، چنانچہ اسے کھڑا کر کے کسی اور کا بیٹھنا جائز نہیں ہے۔

جیسے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا کہ کسی آدمی کو اس کی جگہ سے کھڑا کر کے کسی اور کو اس کی جگہ پر بٹھایا جائے، تاہم کھل جائیں اور بیٹھنے کے لیے جگہ میں وسعت پیدا کر لیں۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6270) اور مسلم : (2177)نے روایت کیا ہے۔

نیز احادیث میں یہ بھی ہے کہ جب تک کوئی کسی جگہ پر بیٹھا ہو اس جگہ کا وہی حق دار ہے یہاں تک کہ وہ اس جگہ کو چھوڑ دے۔

جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی اپنی جگہ سے اٹھ کر جائے اور پھر واپس آ جائے تو اس کا اس جگہ پر زیادہ حق ہے۔) مسلم: (2179)

اسی طرح امام قرطبی ؒ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آدمی کو اس کی جگہ سے اٹھانے کی ممانعت اس لیے فرمائی کہ: اس شخص نے بیٹھنے کی جگہ پر پہلے پہنچ کر اس جگہ کے فائدے کو اپنے لیے مختص کر لیا یہاں تک کہ وہ اپنی مرضی سے اور اپنی غرض پوری ہونے پر اس جگہ کو چھوڑ دے؛ گویا کہ وہ اس جگہ سے فائدہ اٹھانے کا عارضی مالک بن گیا اب اس عارضی ملکیت اور مالک کے درمیان کسی بھی رکاوٹ کو کھڑا کرنا جائز نہیں رہا۔

اس بنا پر : حدیث میں موجود ممانعت ظاہری طور پر نہی تحریمی ہو گی، جبکہ دوسرے موقف کے مطابق نہی کراہت کے لیے ہے۔ دونوں میں سے پہلا موقف زیادہ بہتر ہے۔" ختم شد از: "المفهم" (5 / 509)

اسی طرح ابن ابی جمرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مذکورہ حکم صرف ایسی جگہوں کے لیے خاص ہے جہاں لوگوں کے لیے جانا اور وہاں جا کر بیٹھنا جائز ہو، یا تو عوام الناس سب کے لیے اجازت ہو جیسے کہ مسجد، حاکم وقت کی بیٹھک، علمی مجالس وغیرہ۔۔۔ یا پھر مخصوص لوگوں کو اجازت ہو، مثلاً: کوئی شخص مخصوص لوگوں کو اپنے گھر میں شرعی طور پر جائز ولیمے وغیرہ کی دعوت پر بلاتا ہے؛ تو ان مجالس میں بھی جو شخص جس جگہ آ کر پہلے بیٹھ جائے تو اسے وہاں سے اٹھا کر کھڑا کرنا اور کسی دوسرے کو اس جگہ پر بٹھانا درست نہیں۔۔۔
ایسی جگہ ساری کی ساری بیٹھنے کے لیے مباح ہے: تمام لوگ اس حکم میں یکساں ہیں چاہے کوئی اعلی مقام کا حامل ہو یا کوئی نچلے طبقے کا ہو جو بھی بیٹھنے کے لیے پہلے پہنچ گیا وہ اس جگہ کا حقدار ہو گا۔ چنانچہ جو شخص کسی بھی چیز کا شرعی طور پر حقدار بن جائے تو اسے غیر شرعی طریقے سے چھیننا غصب کہلائے گا، اور غصب کرنا اجماعی طور پر حرام ہے۔۔۔" ختم شد از: "بهجة النفوس" (4 / 194)

اسی طرح الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس میں مسلمان بھائی پر زیادتی ہو گی۔۔۔
اس حدیث سے حاصل ہونے والے فوائد: کسی کی جگہ پر بیٹھنے کے لیے اسے اٹھانا حرام ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ: نہی میں اصل حرمت ہوتی ہے۔ نیز حرام ہونے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ یہ اس شخص کے ساتھ زیادتی ہے، اور زیادتی کے بارے میں بھی اصل حکم بھی حرمت کا ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ: جب تک کسی کی ضرورت پوری نہ ہو وہ اس جگہ کا حقدار ہے؛ چنانچہ مسجد میں نماز کی جگہ ، درس سننے کی جگہ، منڈی میں خرید و فروخت کی جگہ، یا اس کے علاوہ کوئی بھی جگہ جس کا وہ حقدار ہے یہ سب جگہیں اس میں شامل ہیں جب تک وہ اس جگہ کو خود سے نہ چھوڑے۔۔۔" ماخوذ از: "شرح بلوغ المرام" (6 / 252 - 253)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ: جو کسی کو اس کی جائز جگہ سے اٹھا دے تو اس نے بیٹھے ہوئے شخص پر ظلم کیا، ایسے شخص کو فوری اپنے کیے پر معافی طلب کرنی چاہیے، وگرنہ وہ قیامت کے دن نیکیوں اور گناہوں کے تبادلے کی صورت میں قصاص دے گا۔

اس لیے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس نے اپنے بھائی پر ظلم کیا ہوا ہو تو وہ اس کی معافی تلافی اپنے بھائی سے کر لے؛ کیونکہ وہاں [روزِ قیامت] دینار اور نہ ہی درہم ہوں گے۔ قبل ازیں کہ اس کے بھائی کے حق میں ظالم کی نیکیاں چھین لی جائیں ۔ اور اگر ظالم کی نیکیاں ہی نہ ہوئیں تو اس کے بھائی کے گناہ پکڑ کر ظالم پر ڈال دئیے جائیں گے۔) بخاری: (6534)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب