جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ہمت باندھنے کے لیے متعدد قرائے کرام کے پیچھے قیام کی نیت سے ایک سے زائد مساجد میں اعتکاف کا کیا حکم ہے؟

314071

تاریخ اشاعت : 21-04-2022

مشاہدات : 2233

سوال

رمضان کے آخری عشرے میں ایک سے زائد مساجد میں اعتکاف کرنے کا کیا حکم ہے؟ مثلاً: دو راتیں ایک مسجد ، پھر دو راتیں کسی اور مسجد میں ، تا کہ مسجد اور امام تبدیل ہونے سے نیا جوش اور ولولہ پیدا ہو۔

جواب کا خلاصہ

ایک سے زائد مسجد میں اعتکاف بیٹھنا جائز ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ ایک ہی مسجد میں اعتکاف کیا جائے، البتہ اعتکاف کے آغاز میں ہی مسجد سے جانے کی شرط لگا لی جائے تو مسجد سے باہر جانا بھی جائز ہے۔ یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ اگر ایک مسجد سے دوسری مسجد میں ایک دو راتیں اعتکاف کے لیے جاتا ہے تو وہ سنت سے ثابت شدہ پورے عشرے کے اعتکاف سے محروم ہو جائے گا، پہلی مسجد سے نکلتے ہی اس کا اعتکاف منقطع ہو جائے گا، اور دوسری مسجد میں اعتکاف اسی وقت شروع ہو گا جب مسجد میں داخل ہو گا، تفصیل کے لیے مکمل جواب ملاحظہ کریں۔

الحمد للہ.

اول:

ایک سے زائد مسجد میں اعتکاف کا حکم:

ایک مسجد میں دو راتیں ، پھر دوسری مسجد میں دو راتیں اعتکاف کرتے ہوئے عشرہ پورا کرنا جائز ہے؛ کیونکہ صرف ایک رات کا اعتکاف بھی صحیح ہے، بلکہ بعض اہل علم کے ہاں تو ایک گھڑی اور لمحہ کے لیے بھی اعتکاف درست ہوتا ہے۔

نووی رحمہ اللہ "المجموع" (6/514) میں کہتے ہیں:
"کم از کم اعتکاف کے بارے میں صحیح ترین موقف جسے جمہور اہل علم نے دو ٹوک بیان کیا ہے کہ اس میں مسجد کے اندر ٹھہرنا شرط ہے اور تھوڑی یا زیادہ مدت کے لیے اعتکاف کیا جا سکتا ہے چاہے ایک گھڑی یا لمحہ ہی کیوں نہ ہو۔" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (49002 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

تاہم اعتکاف کے لیے ایک مسجد سے دوسری مسجد میں منتقل ہونے والا شخص احادیث میں وارد مسنون اعتکاف سے محروم ہو جائے گا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اعتکاف کے متعلق طریقہ یہ تھا کہ آپ پورا عشرہ بغیر کسی انقطاع کے اعتکاف بیٹھتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دوران اعتکاف مسجد میں ہی وقت گزارتے تھے کسی انتہائی مجبوری کے بغیر بالکل بھی باہر نہیں جاتے تھے، حتی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دوران اعتکاف مسجد میں ہوتے ہوئے میری طرف حجرے میں اپنا سر کر دیتے تو میں آپ کے بال بنا دیتی ، اور آپ ضرورت پڑنے پر ہی گھر داخل ہوتے تھے) اس حدیث کو امام بخاری: (2029) اور مسلم : (297)نے روایت کیا ہے۔

چنانچہ اگر کوئی شخص ایک رات اس مسجد میں تو دوسری رات دوسری مسجد میں اعتکاف کرتا ہے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس طریقے سے بہت دور ہو جائے گا۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (49007 ) اور (12658 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

معتکف کا مسجد سے نکلنا اور باہر جانے کی شرط لگانا۔

اعتکاف کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپ آخری عشرہ مکمل اور تسلسل کے ساتھ اعتکاف بیٹھتے تھے، لہذا اگر کوئی شخص سنت پر عمل کرنا چاہے تو ایک ہی مسجد میں پورا عشرہ اعتکاف بیٹھے۔

تاہم معتکف اعتکاف بیٹھتے ہوئے جوش اور جذبہ پیدا کرنے کی غرض سے یہ شرط لگا سکتا ہے کہ وہ تراویح کے لیے دوسری مسجد میں جائے گا، اگرچہ افضل یہی ہے کہ انسان اپنی مسجد میں ہی رہے ؛ کیونکہ اعتکاف قرب الہی کی تلاش میں مسجد کے اندر ٹھہرنے کا نام ہے۔

جیسے کہ "زاد المستقنع" میں ہے کہ:
" معتکف آدمی مسجد سے باہر کسی انتہائی مجبوری کی وجہ سے ہی نکل سکتا ہے، تاہم بیمار کی عیادت نہ کرے، اور نہ ہی جنازے میں حاضر ہو ، الا کہ حاضر ہونے کی شرط لگا لے۔"

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ زاد المستقنع کی شرح : (6/ 523) میں کہتے ہیں:
"مصنف نے کہا کہ "الا کہ حاضر ہونے کی شرط لگا لے" اس سے معلوم ہوا کہ ابتدائے اعتکاف میں ایسی شرط لگانا جائز ہے، چنانچہ جب اعتکاف بیٹھنے کی نیت کرے اور کہے کہ: پروردگار! میں مریض کی عیادت یا جنازے میں شرکت کا استثنا رکھتا ہوں۔

لیکن پھر بھی یہ کوئی بہتر عمل نہیں ہے، افضل یہی ہے کہ اعتکاف میں ہی رہے، تاہم اگر کوئی مریض ہے یا کوئی قریب المرگ ہے اور اس کا معتکف پر کوئی حق بھی ہے تو یہاں استثنا کی شرط لگانا زیادہ بہتر ہے، مثلاً: مریض ایسا رشتہ دار ہے جس کی عدم عیادت قطع رحمی شمار ہو، تو ایسی صورت میں استثنا کی شرط لگا لے، اسی طرح جنازے میں شرکت کا استثنا لے لے۔" ختم شد

دوران اعتکاف کسی نیکی یا کسی غیر ضروری اور جائز کام کے لیے باہر نکلنا بھی جائز ہے۔ تفصیل کے لیے سوال نمبر: (37951 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

جیسے کہ "مطالب أولي النهى" (2/ 242) میں ہے کہ:
"معتکف کے لیے نذر مانے ہوئے اعتکاف کی ابتدا کے وقت ایسے کام کے لیے باہر جانے کی شرط لگانا جائز ہے جو کہ غیر ضروری ہے، مثلاً: جمعہ کی ادائیگی، گواہی دینا، مریض کی عیادت اور جنازے میں شرکت وغیرہ، اسی طرح کسی ایسی نیکی کے لیے بھی باہر جا سکتا ہے جو کہ اس پر فرض عین نہیں ہے، مثلاً: صلہ رحمی اور دوست سے ملنے کی اسی طرح میت کو غسل دینے کی شرط لگانا، یا ایسا کام کرنا جو نیکی بھی نہیں ہے اور اس کام کو کرنا لازم بھی نہیں ہے، مثلاً: اپنے گھر میں رات کا کھانا اور رات گزارنے کی شرط لگانا۔ یہ اس لیے ہے کہ وقف کی طرح یہ بھی فوری واجب ہو جاتا ہے نیز اس لیے بھی کہ اس شخص کی کیفیت ایسی ہو جائے گی جیسے اس نے صرف اتنی دیر ہی اعتکاف کیا ہے جتنی دیر وہ مسجد میں ٹھہرنے کی نیت کرتا ہے، نیز رات کا کھانا اور رات کو سونا دونوں ایسے کام ہیں کہ جو انسانی حاجت ہیں اور کوئی ان میں نیابت بھی نہیں کر سکتا۔" ختم شد

حاصل کلام یہ ہوا کہ : ایک سے زائد مسجد میں اعتکاف بیٹھنا جائز ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ ایک ہی مسجد میں اعتکاف کیا جائے، البتہ اعتکاف کے آغاز میں ہی مسجد سے جانے کی شرط لگا لی جائے تو مسجد سے باہر جانا بھی جائز ہے۔
یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ اگر ایک مسجد سے دوسری مسجد میں ایک دو راتیں اعتکاف کے لیے جاتا ہے تو وہ سنت سے ثابت شدہ پورے عشرے کے اعتکاف سے محروم ہو جائے گا، پہلی مسجد سے نکلتے ہی اس کا اعتکاف منقطع ہو جائے گا، اور دوسری مسجد میں اعتکاف اسی وقت شروع ہو گا جب مسجد میں عملی طور پر داخل ہو گا، اور آنے جانے کے دوران کا وقت اعتکاف سے خالی رہے گا!!

چنانچہ انسان دیکھ لے کہ جوش پیدا کرتے کرتے اس کا اجر بھی کم ہو جائے اور سنت پر بھی عمل نہ ہو، نیز ممکن ہے کہ پہلی مسجد جیسی ہمت اور ولولہ دوسری مسجد میں پیدا ہی نہ ہو۔

پھر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے سے قلبی لگاؤ بھی منتشر رہے گا، اور دوسری جگہ پر دل لگنے میں بھی وقت لگے گا۔

اس لیے ظاہر یہی ہو تا ہے ایک مسجد سے دوسری مسجد جانے کی وجہ سے جو فضیلت اور ثواب کم ہو گا وہ غیر یقینی اور محض متوقع جوش و جذبے سے کہیں زیادہ ہے، تو یہ اس وقت ہے جب جوش و جذبہ پیدا ہو جائے، لیکن اگر پیدا ہی نہ ہو تو پھر نقصان اور زیادہ ہو جائے گا۔

یہاں یہ اقدام مناسب ہو گا کہ جس مسجد میں سب سے زیادہ اس کا دل لگے وہیں پر اعتکاف کرے، اور اگر دل مانے تو آئندہ سال کسی اور مسجد میں اعتکاف بیٹھ جائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب