ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

امانتدار مسلمان تاجر کی خوبیاں

283602

تاریخ اشاعت : 12-01-2024

مشاہدات : 445

سوال

کاروبار کرنے کے حوالے سے بنیادی اصول اور حدود کیا ہیں؟ میرا مطلب یہ ہے کہ اب مارکیٹ میں میرے مقابلے میں کافی دکاندار ہیں، ان میں سے چند اپنے کاروباری حریفوں کی مسلسل جاسوسی کر رہے ہیں، اور کچھ اپنے حریف کو اس بنیاد پر کچل دیتے ہیں کہ "کاروبار میں کوئی ترس نہیں کھاتا" یا حریفوں کو کچلنے کا کام اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ: "اگر میں اسے آج نہیں دباتا تو کل وہ مجھے دبا دے گا۔" تو اس صورت حال میں مجھے اپنے کاروباری حریفوں کے ساتھ کیا کرنے کی اجازت ہے؟ مزید یہ بھی بتلائیں کہ گاہکوں کے ساتھ ڈیل کرنے لیے کیا مجھے یہ حق ہے کہ میں کچھ بھاڑے کے لوگوں کو لاؤں اور وہ میرے پاس آنے والے گاہکوں کو میری مصنوعات خریدنے کا مشورہ دیں، میرے گاہک انہیں یہ سمجھیں کہ وہ بھی انہی کی طرح خریدار ہی ہیں حالانکہ وہ گاہک نہیں ہیں بلکہ میرے اپنے کارندے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو میری مصنوعات اور چیزوں کے بارے میں علم ہو کہ میری چیزیں بالکل اصلی ہیں تو اس کا کیا حکم ہو گا؟ اور یہ بھی بتلائیں کہ کیا اپنی امانتداری کو ظاہر کرتے ہوئے مجھے پر یہ لازم ہے کہ میں اپنی چیزوں کی اجزائے ترکیبی بھی بتلاؤں ، حالانکہ یہ چیزیں کمپنیوں اور تاجروں کے راز ہوتی ہیں؟ گاہکوں اور تجارتی حریفوں کے ساتھ تعامل کرنے کے لیے بہت سے مشکوک طریقوں کی موجودگی میں، میں ایک ایماندار تاجر کیسے بن سکتا ہوں؟ نیز کیا آپ مجھے ایسی کتابیں بتلائیں گے جن کو تاجر روزانہ کی بنیاد پر زیر مطالعہ رکھے اور ان سے رہنمائی حاصل کرے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

تاجر حضرات کو متعدد خوبیوں اور اخلاق حسنہ کا حامل ہونا چاہیے، تا کہ ان کی بدولت اللہ تعالی اس کی تجارت اور رزق میں برکت فرمائے ۔

ان متعدد خوبیوں میں سے چند درج ذیل ہیں:

-تجارت میں مشغول ہو کر عبادت عدم توجہ کا شکار نہ ہو، لہذا نمازیں، اور اللہ تعالی کا مالی حق وقت پر ادا کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے ایسے مومن بندوں کی مدح اور توصیف بیان کی ہے جنہیں تجارت ؛ اطاعت الہی سے مشغول نہیں کر پاتی، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ * لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
ترجمہ: ایسے مرد جنہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کے ذکر ، نماز قائم کرنے اور زکاۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی [37] اس ارادے سے کہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے نیز اپنے فضل سے کچھ مزید بھی عطا فرمائے، اللہ تعالی جس چاہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔ [النور: 37 - 38]

-حلال روزی کمائے، خود اور اپنے زیر کفالت لوگوں کو حرام مت کھلائے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنے اموال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ۔ [النساء: 29]

-مشکوک لین دین سے بالکل احتراز کریں، جیسے کہ حدیث مبارکہ میں ہے: (جو مشکوک چیزوں سے بچتا ہے وہ اپنی دینداری اور عزت دونوں بچا لیتا ہے، اور جو مشکوک چیزوں میں ملوث ہو تو وہ حرام میں بھی ملوث ہو ہی جاتا ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (52) اور مسلم : (1599) نے روایت کیا ہے۔

-تقوی ، دوسروں کے ساتھ بھلائی اور سچائی کا دامن ہر وقت تھامے رکھے، چنانچہ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (خریداری کرنے والے دونوں فریق جب تک جدا نہ ہو جائیں صاحب اختیار ہوتے ہیں، چنانچہ اگر دونوں سچ بولیں، ہر چیز واضح کریں تو ان دونوں کے لین دین میں برکت ڈال دی جاتی ہے، اور اگر حقائق چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو ان کے لین دین میں سے برکت مٹا دی جاتی ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (1973) اور مسلم : (1532) نے روایت کیا ہے۔

ایسے ہی اسماعیل بن عبید بن رفاعہ اپنے والد اور وہ رفاعہ سے بیان کرتے ہیں کہ : "ایک بار وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ عید گاہ کے میدان میں گئے تو وہاں دیکھا لوگ خرید و فروخت کر رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اے تاجروں کی جماعت!) اس پر تمام تاجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات سننے کے لیے متوجہ ہو گئے اور اپنی گردنیں اور نگاہیں اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دیکھنے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تاجر قیامت کے دن فاجروں کی حالت میں اٹھائے جائیں گے، ماسوائے ان تاجروں کے جنہوں نے تقوی، دوسروں کے ساتھ بھلائی اور سچائی اپنائی۔)" اس حدیث کو ترمذی (1210) اور ابن ماجہ (2146) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے " صحيح الترغيب " (1785) میں صحیح قرار دیا ہے۔

-صدقہ خیرات کرتا رہے، چنانچہ سیدنا قیس بن ابو عرزہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اے تاجروں کی جماعت ! خرید و فروخت اور لین دین میں بہت سی بے جا باتیں ہوتی ہیں اور قسمیں بھی کھائی جاتی ہیں ، تو ان میں صدقہ ملا دیا کرو ۔) اس حدیث کو ترمذی: (1208) ، ابو داود: (3326) ، نسائی:(3797) ، اور ابن ماجہ: (2145 )نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

-فیاضی اور آسانی کے ساتھ معاملات کرے؛ چنانچہ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم فرمائے جو بیچتے ، خریدتے اور قرض کی وصولی کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتا ہے۔)

-تنگ دست کو مزید مہلت دیں اور ہو سکے تو قرض معاف کر دیں، چنانچہ ابو الیسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے، یا اسے معاف ہی کر دے تو اللہ تعالی اسے اپنے سائے تلے سایہ نصیب فرمائے گا۔) مسلم: (3006)

-حرام لین دین اور ایسی تمام بری باتوں سے دور رہے جو کسی بھی مسلمان کو زیب نہیں دیتیں، چاہے کوئی تاجر ہو یا نہ ہو، مثلاً: سودی لین دین کرنا، دھوکے پر مشتمل بیع کرنا، ادھار مہنگا فروخت کر کر کے اسی کو نقد سستا خرید لینا، حرام چیزوں کی تجارت کرنا، ملاوٹ کرنا، جھوٹ بولنا، اور دھوکا دہی وغیرہ۔

-اسی طرح مسلمان تاجر کو چاہیے کہ اچھے اخلاق کا مرقع بن کر رہے، مثلاً: اگر کوئی شخص خریدی ہوئی چیز واپس کرنا چاہتا ہے تو اس سے چیز واپس لے لیں، محتاج شخص کی مدد کریں، اپنے تاجر بھائی کے لیے بھی وہی پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، اپنے تاجر بھائیوں اور مسلمانوں کے لیے دعا کرے کہ اللہ تعالی سب کو اپنی طرف سے حلال اتنا دے کہ اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کی ضرورت نہ رہے، اور اللہ تعالی سب کو اپنے فضل سے اتنا عطا کرے کہ کسی اور کی طرف ان کی توجہ ہی نہ جائے۔

مسلمان تاجر کو چاہیے کہ اللہ تعالی پر توکل کرے، اپنے دل کو صرف اللہ تعالی کے ساتھ جوڑے رکھے وہی تو مسبب الاسباب ہے اور ساری خلقت کو رزق دینے والا ہے۔

تاجر شخص کو طمع، لالچ، بخلی، کنجوسی، ماپ تول میں کمی، اور ناجائز ذخیرہ اندوزی سمیت دیگر تمام مذموم حرکتوں سے دور رہنا چاہیے، اور دوسری طرف کوشش کرے کہ تمام اچھی خوبیوں کا مالک بنے کہ ہمیشہ سچ بولے، اچھے طریقے سے لین دین کرے، لوگوں کی ہمیشہ خیر خواہی چاہے، اور جود و سخا سے کام لے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (128891 ) اور (131590 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:
تاجر برادری کی جاسوسی کرنا، تجارتی حریفوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش اور ارادہ کرنا، اور یہ کہنا کہ تجارت میں ترس نامی کوئی چیز نہیں ہوتی: یہ سب باتیں حرام ہیں ، مسلمان تاجر میں ایسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے؛ کیونکہ جاسوسی کرنا تو شریعت میں ویسے ہی حرام ہے، پھر مسلمان کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرنا بھی حرام کام ہے، مسلمان کو تو چاہیے کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، اور اپنے لیے جو پسند نہیں کرتا وہی اپنے بھائی کے لیے بھی پسند نہ کرے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی ایک دوسرے کو باہمی نقصان پہنچاؤ۔) اس حدیث کو ابن ماجہ رحمہ اللہ (2340)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابن ماجہ" میں صحیح قرار دیا ہے۔

علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں واضح ہے کہ کسی دوسرے کو کسی بھی انداز سے نقصان پہنچانا حرام ہے، چاہے وہ کسی بھی انداز سے ہو، اس لیے کسی بھی شکل میں نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے، ہاں کسی ایسی دلیل کے بعد جائز ہو سکتا ہے جو اس عموم کی تخصیص کر دے۔" ختم شد
"نيل الأوطار" (5/ 311)

صحیح بخاری: (13) ، مسلم (45) ، اور نسائی: (5017) -حدیث کے الفاظ انہی کے ہیں- میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی بھلائی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علامہ کرمانی نے یہ بھی کہا ہے کہ: یہ بھی ایمان کا حصہ ہے کہ انسان اپنے بھائی کے لیے بھی نقصان اسی طرح پسند نہ کرے جس طرح اپنا نقصان ناپسند رکھتا ہے۔" ختم شد

اسی طرح مسلمانوں کے بارے میں بد ظنی بھی جائز نہیں ہے، اس لیے کسی مسلمان تاجر کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ : اگر آج میں نے اس کے ساتھ یہ نہ کیا تو کل یہ میرے ساتھ ضرور کرے گا۔
بلکہ مسلمان کے بارے میں بد ظنی کی بجائے ، اچھا گمان رکھے، اور اگر کوئی بد ظنی کرے بھی تو برائی کا بدلہ برائی سے نہ دے، بلکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا اخلاق اپناتے ہوئے معاف کر دے اور در گزر سے کام لے۔

تاجروں کے درمیان مقابلہ با عزت انداز میں ہونا چاہیے جس کی بنیاد صداقت، اخوت اور محبت پر ہوتی ہے، دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف بد گمانی نہ ہو، ظلم نہ پایا جائے، لوگوں کا مال باطل طریقے سے ہڑپ مت کریں، لالچ، بخیلی اور طمع سے دور رہیں، مارکیٹ میں چیزوں کی طلب اور رسد مد نظر رکھیں اور ناجائز ذخیرہ اندوزی نہ کریں، اور کسی بھی شخص پر ظلم کا شائبہ تک نہ آنے دیں۔

سوم:
گاہکوں کے ساتھ ڈیل صداقت پر مبنی ہو، اس میں کسی قسم کی ملاوٹ، دھوکا اور ظلم نہیں ہونا چاہیے، آپ نے ذکر کیا کہ میں کچھ لوگوں کو بھاڑے پر اس لیے رکھوں جو گاہکوں کو مجھ سے خریداری کا مشورہ دیں، اور گاہک یہ سمجھیں کہ وہ بھی انہی کی طرح گاہک ہیں تو یہ جائز نہیں ہے ؛ کیونکہ یہ دھوکا دہی، جھوٹ اور حقائق مسخ کرنے کے زمرے میں آتا ہے، اور یہ تمام چیزیں اللہ تعالی کے دین میں حرام ہیں؛ پھر یہ چیزیں جس تاجر میں پائی جائیں گی اسے سچا اور بھلا تاجر نہیں کہا جا سکتا۔

ہمیں محسوس ہوتا ہے -واللہ اعلم-کہ یہ بھی ناجائز اور حرام بولی بڑھانے کے زمرے میں آتا ہے۔

جیسے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نجش: اسے کہتے ہیں کہ مبیع کی قیمت بڑھا کر بازار میں صدا لگائی جائے، حالانکہ وہ خود اسے خریدنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو بلکہ وہ قیمت صرف اس لیے بڑھا رہا ہے دوسرے لوگ جلدی سے خریداری کر لیں، تو یہ حرام ہے۔" ختم شد
"رياض الصالحين" (174)

تو سوال میں مذکور دکاندار کا عمل بھی مذکورہ حرام عمل سے مختلف نہیں ہے کہ دونوں میں مقصد ایک ہی ہے کہ خریداروں کو جلد از جلد خریداری پر غلط طریقے سے آمادہ کیا جا رہا ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (2150 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

جبکہ مسلمان تاجر تو اللہ تعالی سے ڈرتا ہے، اور لوگوں کے ساتھ سچائی پر مبنی معاملات طے کرتا ہے، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مفید اور اچھی چیزیں خریداروں کے لیے پیش کرے، اچھے اخلاق کے ساتھ لوگوں سے پیش آئے، تو یہی وہ چیز ہے جو تاجر کے لیے گاہک کھینچ کر لاتی ہے، اور انسان کو اپنی تجارت میں فائدہ ہوتا ہے، ایسے تاجر کو سچا اور امانتدار تاجر کے طور پر مارکیٹ میں پہچانا جاتا ہے، اسی وجہ سے لوگ ہر جگہ سے اسی کی طرف آتے ہیں، اور سب لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، اس کے لیے مقبولیت لکھ دی جاتی ہے کہ اسے : مسلمان، صادق، امین، سخی، با اخلاق، حسن تعامل، محبت کرنے والا اور شفقت کرنے والا تاجر سمجھا جانے لگاتا ہے۔

چہارم:

یہ آپ پر لازم نہیں ہے کہ آپ گاہکوں کو اپنی مصنوعات کے خام مال کے متعلق بتلائیں، اور اگر کوئی گاہک آپ سے اس کے متعلق پوچھے تو آپ کے پاس دو اختیار ہیں، ان میں سے جو مناسب ہو آپ کریں: آپ اسے سچ، سچ بتلائیں، یا پھر اسے اس سوال کا جواب دینے سے معذرت کر لیں۔ لہذا آپ اسے غلط بیانی نہیں کر سکتے۔

ہم آپ کو درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کرنے کی نصیحت کریں گے:
{ فقه التاجر المسلم } از الشیخ حسام الدین بن عفانہ۔

{ ما لا يسع التاجر جهله } از ڈاکٹر عبد اللہ المصلح، و ڈاکٹر صلاح صاوی۔

{ أخلاق المسلم في التجارة } از ڈاکٹر محمود قاسم الشیخ۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب