منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

ہم قرآن کریم کی تلاوت کے دوران یہ کیسے محسوس کریں کہ اللہ ہم سے مخاطب ہے؟

سوال

علمائے کرام کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے ہم اس احساس کو اجاگر کریں کہ ہر آیت پر ہم سے اللہ تعالی مخاطب ہے۔ لیکن شیخ محترم ہم اس احساس کو اس وقت کس طرح اجاگر کریں جب اللہ تعالی کفار، مشرکین اور رسولوں کی دعوت کو جھٹلانے والوں کے متعلق گفتگو فرماتا ہے ؟ حالانکہ میں تو مسلمان بھی ہوں اور آخرت کے دن پر ایمان بھی رکھتا ہوں! اللہ تعالی آپ کو برکتوں سے نوازے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ:

قرآن کے ذریعے اللہ تعالی انسان سے مخاطب ہوتا ہے اس کا احساس اس طرح پیدا ہو گا کہ خاموشی سے قرآن کریم سنیں، قرآن کریم پر غور و فکر کریں، اور پھر اس پر عمل بھی کریں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو قرآن کریم کے ذریعے مخاطب فرماتا ہے، انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے، کبھی کچھ مخصوص مسلمانوں کو بھی مخاطب فرماتا ہے اور تو کبھی سب کو عمومی طور پر خطاب فرماتا ہے۔

چنانچہ اگر صرف اہل ایمان کو مخاطب فرمائے تو مسلمان اس کی طرف مکمل توجہ دے اور کہے: ہم نے سن لیا اور اطاعت کی۔ جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "جب تم اللہ تعالی کا فرمان : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا سنو تو اپنے کانوں کو متوجہ کرو؛ کیونکہ اب اللہ تعالی کسی خیر کا حکم دے گا یا کسی برائی سے روکے گا۔ "
تفسیر ابن کثیر(1/ 374)

اور جس وقت سب لوگوں کے لئے خطاب عام ہو تو دل میں یہ بات لائے کہ اللہ تعالی نے اسے بھی مخاطب کیا ہے: چنانچہ اگر کسی کام کے کرنے کا حکم ہے تو اس پر عمل پیرا ہو اور اگر کسی کام سے روکا ہو تو اس سے رک جائے، اور اگر کوئی نصیحت ہو تو اس کے مطابق عمل کرے۔

انسان پورے قرآن کریم کی تلاوت کے دوران یہ بات ذہن میں رکھتا ہے کہ اللہ تعالی اس سے مخاطب ہے، تاہم قرآن کے مختلف حصوں کے اعتبار سے اس میں تبدیلی آتی رہتی ہے:

لہذا جب کسی نیکی کا ذکر کیا جائے تو یہ ذہن میں رکھے کہ اللہ تعالی نے اسے بھی یہ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے، اور اگر کوئی نافرمانی کا ذکر ہو رہا ہو تو یہ ذہن میں رکھے کہ اللہ تعالی نے اس سے روکا ہے، اور جب اہل ایمان کا تذکرہ چل رہا ہو تو یہ ذہن میں بٹھائے کہ اللہ تعالی نے ان سے محبت اور تعلق بنانے کا حکم دیا ہے، اور جب اہل کفر و نفاق کا ذکر ہو تو یہ ذہن میں رکھے کہ اللہ تعالی نے ان سے بغض اور دشمنی رکھنے کا حکم دیا ہے۔

اسی طرح جب شیطان کا ذکر آئے تو یہ سمجھے کہ اللہ تعالی نے شیطان سے دشمنی، مخالفت اور اس کے پیچھے نہ چلنے کا حکم دیا ہے، نیز بندہ اللہ تعالی کی تابعداری کا پابند ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ * وَأَنِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ

 ترجمہ: اولاد آدم! کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی بندگی نہ کرو، بیشک وہ تمہارے لیے واضح دشمن ہے [60] اور میری ہی عبادت کرو، یہی صراط مستقیم ہے۔[يس:60، 61]

اسی طرح جب صداقت اور سچے لوگوں کا ذکر ہو تو یہ ذہن میں لائے کہ اللہ تعالی نے صداقت پر عمل پیرا ہونے اور سچے لوگوں میں شامل رہنے کا حکم دیا ہے۔

اور جب جھوٹ اور جھوٹے لوگوں کا ذکر ہو تو یہ ذہن میں لائے کہ اللہ تعالی نے جھوٹ سے بچنے اور جھوٹے لوگوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔

امام ابو بکر آجری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"پھر اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کو قرآن کریم پر تدبر کرنے کی ترغیب دلائی اور فرمایا:

أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا

 ترجمہ: کیا وہ قرآن کریم پر تدبر نہیں کرتے! یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں؟ [محمد:24]

ایسے ہی اللہ تعالی نے فرمایا:

  أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيراً  

 ترجمہ: کیا وہ قرآن پر غور و فکر نہیں کرتے!؟ اگر یہ قرآن غیر اللہ کی جانب سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے! [النساء:82]

اس پر محمد بن حسین ابو بکر آجری رحمہ اللہ کہتے ہیں: کیا تم نہیں دیکھتے - اللہ تم پر رحم فرمائے-اپنے کرم فرما مولا کی جانب؟! وہ کس طرح اپنی خلقت کو قرآن کریم پر تدبر کی ترغیب دیتا ہے؟ اللہ کے کلام پر تدبر کرنے والا رب تعالی کی معرفت حاصل کر لیتا ہے، اسے اللہ کی عظیم سلطنت اور قدرت کی پہچان ہو جاتی ہے، وہ جان لیتا ہے کہ اس کا مومنوں پر کتنا عظیم فضل ہے، ساتھ میں اسے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس پر کون سی عبادات اللہ کے لئے فرض ہیں، ان سب چیزوں کے بعد انسان اپنے ذمے واجبات پابندی سے ادا کرنے لگتا ہے اور ان تمام چیزوں سے خبردار رہتا ہے جن سے مولا کریم نے خبردار کیا ہے، اور ایسی تمام چیزوں سے محبت کرنے لگتا ہے جن سے اللہ تعالی نے محبت کی ترغیب دلائی ہے۔

اب جس شخص کی قرآن کریم کی تلاوت کے وقت ایسی حالت ہو ، یا کسی دوسرے سے تلاوت سنتے ہوئے یہ حالت اپنائے تو قرآن کریم اس کے لئے شفا بن جاتا ہے، وہ شخص دولت کے بغیر ہی صاحب ثروت ہو جاتا ہے، خاندانی اثر و رسوخ کے بغیر ٹھاٹھ رکھتا ہے، اسے ایسی چیزوں سے مانوسیت ہو جاتی ہے جن سے دوسرے وحشت کھاتے ہیں، وہ جب بھی کسی سورت کی تلاوت کا آغاز کرتا ہے اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ میں جو کچھ پڑھ رہا ہوں اس سے نصیحت کیسے حاصل کروں گا؟ اس کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ میں کب اس سورت کو مکمل کروں گا! اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ میں اللہ تعالی کی باتوں کو کب سمجھوں گا؟ کب برائی سے باز آؤں گا، اور کب نصیحت پکڑوں گا؟ کیونکہ وہ قرآن کریم کی تلاوت عبادت سمجھ کر کرتا ہے اور عبادت غفلت کے ساتھ نہیں ہوتی! اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔" ختم شد
"أخلاق حملة القرآن" (3)

تو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے انسان کی یہی کیفیت ہونی چاہیے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب