جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

اذان فجر ہوتے ہی رمضان کے روزہ کی قضا کا ارادہ کیا، تو کیا روزہ درست ہوگا؟

سوال

سوال: رمضان کے روزوں کی قضا دیتے ہوئے ایک دن اذانِ فجر شروع ہوتے وقت قضاکی نیت کی اور روزہ مکمل رکھا ، تو کیا میرا روزہ درست ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اہل علم کے راجح موقف کے مطابق  تمام واجب  روزوں کیلئے رات سے نیت کرنا شرط ہے، یہ روزہ چاہے قضا  ہو یا رمضان میں ، یہی موقف جمہور اہل علم کا ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر روزہ رمضان  میں رکھ رہا ہے یا رمضان کے روزوں کی قضا  یا پھر نذر  اور کفارے کے فرض روزے رکھ رہا ہے   ہمارے امام [احمد] ، مالک، اور شافعی کے نزدیک رات کو ہی نیت کرنا لازمی ہے، جبکہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رمضان کے روزے ہوں یا کوئی اور معین روزے ،ان کیلئے دن میں بھی نیت کرنا کافی ہے" انتہی
" المغنی " (3/109)

رات کو روزہ رکھنے کی نیت کرنا واجب ہے اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت حدیث ہے کہ: (جو فجر سے پہلے  روزے کی نیت نہ کرے اسکا روزہ نہیں ہے) ترمذی: (730) اس حدیث کو البانی نے "صحیح ترمذی" میں  صحیح کہا ہے، نیز ترمذی رحمہ اللہ نے اس  حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہا:
"اس حدیث کا اہل علم کے ہاں مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص  رمضان میں روزہ رکھتے ہوئے یا رمضان  کی قضا دیتے ہوئے یا پھر نذر کے روزے رکھتے ہوئے فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کرے تو اس کا کوئی روزہ نہیں ہے، چنانچہ اگر رات کو نیت نہیں کرتا تو اسکا یہ روزہ نہیں ہوگا، تاہم نفل روزے کیلئے صبح فجر کے بعد بھی  نیت کر سکتا ہے یہی موقف شافعی، احمد، اور اسحاق کا ہے" انتہی

دوم:

واجب روزے رکھنے والے کیلئے فجر صادق سے پہلے ہی نیت کرنا لازمی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ )
ترجمہ: کھاؤ اور پیو، یہاں تک کہ فجر کے وقت سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے الگ نہ ہو جائے[ البقرة:187]

چنانچہ اس آیت کے مطابق معیار طلوعِ فجر ہے، اذان نہیں ہے، لہذا جس شخص کو طلوعِ فجر  کا یقین ہوگیا اور اس نے ابھی تک روزے کی نیت نہ کی ہو تو اس کا واجب روزہ  چاہے رمضان میں ہو یا رمضان کی قضا کیلئے کسی صورت میں درست نہیں ہوگا۔

اور جس شخص کو طلوعِ فجر  کا یقینی علم نہیں ہوا تو اسے  طلوعِ فجر سے قبل آخری لمحہ تک نیت  کرنے کی اجازت ہے، اسی طرح  اگر کسی شخص کو یہ علم ہو کہ مؤذن وقت سے پہلے اذان دیتا ہے، یا کم از کم اسے مؤذن کے اذان وقت پر یا وقت سے پہلے دینے سے متعلق شک گزرے تو تب بھی طلوعِ فجر سے پہلے آخری وقت تک نیت مؤخر کر سکتا ہے۔
مزید کیلئے دیکھیں: (66202)

سوم:

آج کل عام طور پر مؤذن  گھڑیوں اور تقویم پر ہی اعتماد کرتے ہیں، طلوعِ فجر  دیکھنے پر اعتماد نہیں کرتے، جو کہ طلوعِ فجر کیلئے یقینی  بات کا درجہ نہیں رکھتا، چنانچہ اگر کسی شخص نے اذان کے وقت  کھا پی لیا یا روزے کی نیت کی تو  اس کا روزہ  درست ہے، اور اگر اذان شروع ہوتے ہی ایسا کر لیا  اس میں روزہ صحیح ہونے کا زیادہ  موقع ہے، اور سوال میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے؛ کیونکہ صرف اذان  کی وجہ سے فجر کا وقت یقینی شروع نہیں ہوتا۔

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"ایسے شخص کا  شرعی حکم کیا ہے جو فجر کی اذان سننے کے بعد بھی  کھاتا پیتا رہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"ایک مسلمان  کیلئے جب یہ بات واضح ہو جائے کہ طلوعِ فجر کا وقت ہو چکا ہے تو اسے کھانے پینے و دیگر روزے کے منافی امور سے رک جائنا چاہیے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ )
ترجمہ: کھاؤ اور پیو  یہاں تک کہ فجر کے وقت تمہارے لیے سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے واضح ہو جائے، پھر  رات تک روزہ مکمل کرو۔[البقرة:187]
چنانچہ جب سحری کرنے والا شخص  فجر کی اذان سنے اور اسے معلوم ہو کہ اذان طلوعِ فجر پر ہی ہوتی ہے تو کھانے پینے سے ہاتھ روک لینا واجب ہے، اور اگر مؤذن طلوعِ فجر سے پہلے ہی  اذان دے دیتا ہو تو پھر واجب نہیں ہے، چنانچہ ایسا شخص طلوعِ فجر تک  کھا پی سکتا ہے۔

یہ بات سب کیلئے عیاں ہے کہ شہروں میں رہنے والے لوگ لائٹوں  کی وجہ سے  طلوع فجر فوری طور پر محسوس نہیں کر سکتے، لیکن ایسی صورت میں انہیں اذان یا نمازوں کے اوقات منٹ اور گھنٹہ کیساتھ بیان کرنے والے کیلنڈروں کے مطابق عمل کرنا چاہیے، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ: (جس چیز میں شک ہو اسے چھوڑ دو، اور جس میں شک نہ ہو اسے لے لو) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص شبہات سے بچا تو اس نے اپنے دین اور آبرو کو محفوظ کر لیا)" انتہی
ماخوذ از: "فتاوى رمضان" جمع و ترتیب : اشرف عبد المقصود (صفحہ:  201)

اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال پوچھا گیا:
انسان کھانا پینا کب بند کرے، سننے میں آیا ہے کہ جب مؤذن لا الہ الا اللہ  کہے اس وقت بند کرنا چاہیے؟ اور اگر اذان کے بعد جان بوجھ کر پانی پی لے تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا اس کا حکم بھی عصر کے بعد پانی پینے والے کی طرح ہے؟ یا اس کا روزہ ہوگا؟ کیونکہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ فجر کا وقت کوئی چراغ یا بلب نہیں ہے جو کہ فوری  روشن ہو جائے، فجر طلوع ہوتے ہوتے کچھ دیر لگتی ہے، تو اسکا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر مؤذن طلوع فجر  کے بعد  اذان دیتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: (اس وقت تک کھاتے پیتے رہو جب تک ابن ام مکتوم اذان  نہیں دیتے کیونکہ وہ فجر طلوع ہونے پر ہی اذان دیتے ہیں) چنانچہ جس وقت مؤذن یہ کہے کہ میں طلوعِ فجر دیکھتا ہوں، یا طلوعِ فجر دیکھنے کے بغیر اذان نہیں دیتا تو ایسے مؤذن کی اذان سن کر کھانے پینے سے ہاتھ روک لینا واجب ہے، صرف ایک حالت میں  جس کی اجازت دی گئی ہے کہ جو ہاتھ میں  کھانے کا برتن ہے اس سے اپنی ضرورت پوری کر لے۔

اور اگر اذان کا دار ومدار  تقویم پر ہے، تو حقیقت میں  تقویم  حسی اور مشاہداتی  اوقات سے منسلک نہیں ہوتی، تاہم اس کیلئے حساب پر  انحصار کیا جاتا ہے، ہمارے پاس موجود تقویم ام القری وغیرہ حساب  کے ذریعے تیار کی گئی ہیں، کیونکہ اسے مرتب کرنے والوں نے طلوعِ فجر ، طلوعِ آفتاب، زوال، اور غروب شمس کا مشاہدہ نہیں کیا " انتہی
"اللقاء الشهري" (1/214)

مزید کیلئے سوال نمبر: (124608) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

مذکورہ تفصیل کی بنا پر آپ کا روزہ ان شاء اللہ صحیح ہے؛ کیونکہ  ہمیں یہ یقین نہیں ہے کہ مؤذن طلوعِ فجر کے فوری بعد ہی اذان دیتا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب