سوموار 20 شوال 1445 - 29 اپریل 2024
اردو

کیا والد پر اپنے بچوں کو تحفہ دیتے ہوئے عدل کرنا واجب ہے؟ چاہے بیٹیاں شادی شدہ ہی کیوں نہ ہوں؟

219695

تاریخ اشاعت : 31-01-2024

مشاہدات : 290

سوال

میرے والد محترم 13 سال قبل فوت ہوئے اور اس وقت ان پر کچھ قرضہ بھی تھا اور ان کی پراپرٹی بھی تھی، میرے دونوں بھائیوں نے مل کر قرض چکایا ، میری شادی اور تعلیم کے اخراجات برداشت کیے ہیں۔ میرے والد صاحب نے اپنی زندگی میں دو پراپرٹیاں خریدی تھی اور انہیں میرے کسی ایک بھائی کے نام رجسٹر بھی کروا دیا، پھر کئی بار انہوں نے مختلف مواقع پر اس چیز کا واضح اظہار کیا کہ وہ میرے لیے بھی پراپرٹی خرید کر میرے نام رجسٹر کروائیں گے، واضح رہے کہ اس وقت میری تمام بہنیں شادی شدہ تھیں، اب ان کا کہنا ہے کہ میرے بھائیوں کا مذکورہ پراپرٹی پر کوئی حق نہیں ہے؛ کیونکہ دین میں بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دینے سے منع کیا گیا ہے، تو کیا شادی شدہ بیٹیوں پر بھی مذکورہ حدیث لاگو ہو گی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اولاد، اور بیٹیوں کے درمیان وراثت اور تحائف دیتے ہوئے عدل کرنا واجب ہے۔

وراثت کی تقسیم میں عدل واجب ہے، اس لیے ترکے کی تقسیم مکمل طور پر مبنی بر عدل ہو گی اور اس کا وہی طریقہ ہو گا جو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ مرد کو دو عورتوں کے برابر ملے گا چاہے یہ عورتیں شادی شدہ ہوں یا کنواری ہوں؛ لہذا شادی کی وجہ سے کسی عورت کو ترکے سے محروم کرنا جائز نہیں ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
ترجمہ: اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتا ہے، مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہے، پھر اگر وہ دو سے زیادہ عورتیں (ہی) ہوں، تو ان کے لیے اس کا دوتہائی ہے جو اس نے چھوڑا اور اگر ایک عورت ہو تو اس کے لیے نصف ہے۔ اور اس کے ماں باپ کے لیے، ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہے، جو اس نے چھوڑا، اگر اس کی کوئی اولاد ہو۔ پھر اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث ماں باپ ہی ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے، پھر اگر اس کے (ایک سے زیادہ) بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے، اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائے، یا قرض (کے بعد)۔ تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے تم نہیں جانتے ان میں سے کون فائدہ پہنچانے میں تم سے زیادہ قریب ہے، یہ اللہ کی طرف سے مقرر شدہ حصے ہیں، بے شک اللہ ہمیشہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ [النساء: 11]

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ہمارے ہاں رسم و رواج یہ بنا ہوا ہے کہ عورت کو شادی کے بعد وراثت سے محروم کر دیا جاتا ہے، واضح رہے کہ عورت اپنے حق کا مطالبہ نہیں کرتی، تو آپ کی نظر میں اس حوالے سے کیا شرعی حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب میں فرمایا:
شادی وراثت سے محروم نہیں کرتی، یہ رسم و رواج بالکل باطل ہیں، اگر اس عورت کی شادی ہو گئی ہے اور وہ میت کی بہن ہے، یا بیٹی ہے، یا بیوی ہے تو وہ اپنا حق لے سکتی ہے، چنانچہ اگر کسی مرد کی پانچ بیٹیاں ہوں یا دس بیٹیاں ہوں کچھ کی شادی ہو چکی ہو، اور کچھ ابھی کنواری ہوں تو سب کی سب وراثت میں شریک ہوں گی۔ ایسی ہی کوئی فوت ہو تو اس کے وارثوں میں بہنیں ہیں، یا کسی میت کی والدہ اس کے ورثا میں ہے اور وہ شادی شدہ ہے تو ہر ایک کو اس کا حق دیا جائے گا، شادی کی وجہ سے وراثت کا حصہ نہیں روکا جائے گا، اس معاملے میں سستی سے کام لینا واضح غلطی ہے، ہاں اگر عورت سمجھدار ہو اور اپنا حصہ اسے دے دے جس کی ابھی شادی نہیں ہوئی اور کہے کہ: میری شادی ہو چکی ہے اور الحمد للہ! مجھے مال کی مزید کوئی ضرورت نہیں ہے، میرا حصہ تم لے لو۔ تو اگر عاقل اور سمجھدار ہو اور پورے اختیار سے اپنی بہنوں سے کہے: میرا حق بھی تم ہی لے لو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن یہ کہ شادی کی وجہ سے اسے بالکل محروم ہی کر دیا جائے تو یہ جائز نہیں ہے۔" ختم شد
فتاوى نور على الدرب " (19/443)

ماخذ: الاسلام سوال و جواب