اتوار 19 شوال 1445 - 28 اپریل 2024
اردو

شکار کرنے کی شرائط

194080

تاریخ اشاعت : 05-01-2024

مشاہدات : 721

سوال

کیا اسلام شکار کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ اگر اجازت دیتا ہے تو شکار کرنے کی کیا شرائط ہیں؟ کیا خفیہ طور پر چھپ کر شکار کرنا جائز ہے؟ کیونکہ جس ملک کا میں رہائشی ہوں وہاں پر شکار کرنا منع قرار دے دیا گیا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

بنیادی طور پر خشکی کا شکار سب کے لیے جائز ہے، ماسوائے ایسے شخص کے جس نے حج یا عمرے کا احرام باندھا ہوا ہو، یا حدود حرم میں ہو تو احرام کے بغیر بھی شکار کرنا جائز نہیں ہے۔

جبکہ سمندر سے مچھلی کا شکار کرنا احرام اور غیر احرام دونوں حالتوں میں جائز ہے۔

چنانچہ اگر کوئی شخص حلال جانور کا شکار اسے بیچ کر کمانے کے لیے کرے یا کھانے کے لیے یا تحفے میں دینے کے لیے یا اسی طرح کی کسی جائز غرض کے لیے کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تمام فقہائے کرام کا اس پر اتفاق ہے۔

دوم:
خشکی کے شکار کے لیے شکاری، شکار اور آلہ شکار تینوں کے لیے الگ الگ شرائط ہیں، اور ہم ان کا ذکر اختصار کے ساتھ کرتے ہیں:

شکار صحیح ہونے کے لیے شکاری شخص میں پائی جانے والی شرائط درج ذیل ہیں:

-شکار کرنے والا شخص عاقل اور سمجھدار ہو، یہ شرط حنفی، مالکی، اور حنبلی جمہور فقہائے کرام کے ہاں ہے اسی طرح شوافع کے ہاں یہ ایک قول کے تحت شرط ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر عاقل بچہ ان تمام فقہائے کرام کے ہاں جانور ذبح کرنے کا اہل نہیں ہے، اس لیے بچے کی عدم اہلیت کی وجہ سے شکار کرنے کے لیے بھی نہ اہل ہو گا، پھر یہ بھی ہے کہ شکار کے لیے نیت اور بسم اللہ پڑھنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اور غیر عاقل کی طرف سے نیت اور تسمیہ درست نہیں ہے، یہ وجہ حنفی اور حنبلی فقہائے کرام نے ذکر کی ہے۔

-شکار کرنے والا حج یا عمرے کے احرام میں نہ ہو، چنانچہ اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں شکار کر لے تو اس کا شکار کھایا نہیں جائے گا، بلکہ وہ شکار مردار قرار دیا جائے گا۔

-شکار کرنے والا شخص ایسا ہو جس کا ذبیحہ حلال ہو، یعنی شکار کرنے والا مسلمان یا اہل کتاب سے تعلق رکھتا ہو، اس لیے مشرک ، مجوسی، ملحد کمیونسٹ اور مرتد وغیرہ کا شکار حلال نہیں ہے۔

اس بنا پر: سرے سے نماز نہ پڑھنے والے شخص کا شکار حلال نہیں ہے، اسی طرح اس کا ذبیحہ بھی حلال نہیں ہے؛ کیونکہ وہ شخص کافر اور مرتد ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (106051 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

-شکاری کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ شکاری جانور کو چھوڑتے ہوئے یا نشانہ لگاتے ہوئے اللہ کا نام لے، یہ شرط حنفی، مالکی اور حنبلی جمہور فقہائے کرام کے ہاں ہے۔

-شکاری کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ شکار کسی ایسی چیز کا کرنے کے لیے نشانہ لگائے یا جانور چھوڑے جس کا شکار کرنا حلال ہو، چنانچہ اگر نشانہ کسی انسان یا کسی کے پالتو جانور یا کسی پتھر وغیرہ کا لیا ، لیکن وہ اسے لگنے کی بجائے کسی شکار کو لگ گیا تو یہ شکار حلال نہیں ہے، شکاری جانور کے ذریعے شکار کرنے کی صورت میں بھی یہی حکم ہے۔

دوم:

شکار کے لیے شرائط:

-شکار کے لیے یہ شرط ہے کہ ماکول اللحم جانور ہو، یعنی اس کا گوشت کھایا جا سکتا ہو، تو یہ شرط تمام فقہائے کرام کے ہاں ہے کہ اگر شکار گوشت کھانے کے لیے کیا جا رہا ہو تو ماکول اللحم ہونا ضروری ہے۔

لیکن جب گوشت کھانے کے لیے شکار نہ کیا جا رہا ہو بلکہ کوئی اور عمومی مقصد ہو تو پھر علمائے کرام کا اختلاف ہے:

اس صورت میں حنفی اور مالکی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ شکار کا ماکول اللحم ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ ان کے ہاں شکار کی جلد، بال یا پروں سے استفادے کے لیے کسی ماکول اللحم اور غیر ماکول اللحم دونوں کا شکار کیا جا سکتا ہے، اسی طرح شکار کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے بھی شکار جائز ہے۔

جبکہ شافعی اور حنبلی فقہائے کرام غیر ماکول اللحم جانور کو شکار اور ذبح کرنا جائز نہیں سمجھتے۔

-شکار اپنے پروں یا ٹانگوں کے ذریعے آزادانہ نقل و حرکت کر سکتا ہو، اسے کسی چال کے ذریعے ہی پکڑنا ممکن ہو اور وہ کسی کی ملکیت نہ ہو بلکہ جنگل میں آزاد ہو۔

لہذا ایسے گھریلو جانور جو کسی کی ملکیت ہیں تو ان کا شکار کرنا جائز نہیں ہے۔

-شکار حدود حرم میں نہ ہو، تمام فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حدود حرم میں خشکی کا شکار کرنا حرام ہے، چاہے شکار ماکول اللحم ہو یا نہ ہو۔

-نشانہ لگنے کے بعد شکار کی تلاش کر کر کے شکاری تھک کر بیٹھ نہ جائے، چنانچہ اگر شکار نشانہ لگنے کے بعد چھپ گیا اور شکاری اسے تلاش نہ کر پایا تو پھر اس کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔ تاہم اگر شکار چھپ نہ پائے، یا چھپ جائے تو شکاری اسے تلاش کرتے ہوئے تھک کر نہ بیٹھے تو پھر اس کا گوشت کھانا جائز ہے، یہ مجموعی طور پر فقہائے کرام کے ہاں محل اتفاق موقف ہے۔

-شکار کو نشانہ لگنے کی وجہ سے جانور کا کوئی عضو جسم سے الگ ہو جائے اور شکار عضو الگ ہونے کے باوجود بھی مکمل طور پر زندہ ہو تو الگ ہونے والے عضو کو کھایا نہیں جا سکتا، اس بات میں فقہائے کرام کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو عضو کسی زندہ جانور کا کاٹا گیا تو کٹا ہوا عضو مردار ہے)اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ (2858) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابو داود" میں صحیح قرار دیا ہے۔

جبکہ اس زندہ شکار کو ذبح کرنا لازم ہو گا، اور اگر وہ اسی حالت میں مر جائے تو متفقہ طور پر مردار قرار پائے گا۔

تاہم سمندری شکار میں ایسی شرائط نہیں پائی جاتیں۔

لہذا جمہور فقہائے کرام مالکی، حنبلی اور شوافع کے صحیح ترین موقف کے مطابق پانی کے تمام جانداروں کو کھانا جائز ہے چاہے مچھلی ہو یا کوئی اور جانور؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: أُحِل لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ تمہارے لیے سمندر کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال قرار دیا گیا ہے۔ [المائدہ: 96]

اس لیے سمندر کے تمام ایسے جاندار جو پانی کے بغیر نہیں رہ سکتے وہ حلال ہیں، چاہے جانور زندہ ہوں یا مردہ ۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (182508 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

سوم: آلہ شکار کے لیے شرائط

شکار کے لیے دو قسم کی چیزیں استعمال ہوتی ہیں، شکاری آلات، یا شکاری جانور

شکاری آلات:

-شکار کے آلے کے لیے یہ شرط ہے کہ اتنی تیز دھار والا ہو کہ گوشت کاٹ یا پھاڑ دے، اگر ان دونوں میں سے کچھ بھی نہ ہو تو پھر ذبح کیے بغیر شکار کھایا نہیں جا سکے گا۔

یہاں یہ شرط نہیں ہے کہ شکار کا آلہ لوہے کا بنا ہوا ہو، چنانچہ کسی بھی تیز دھار والے آلے سے شکار کرنا صحیح ہو گا چاہے لوہے کا ہو یا لکڑی کا یا تیز دھاری دار پتھر وغیرہ کسی بھی چیز کا ہو، شرط یہ ہے کہ جسم میں پیوست ہو جائے۔

-شکار کرنے کا آلہ اپنی تیز دھار کی سمت سے شکار کو لگے اور اس کا خون بہا دے، پھر یہ بھی یقینی ہو کہ شکار کی موت اسی خون بہنے کی وجہ سے ہو، اگر شکار کی موت کسی اور وجہ سے ہوئی مثلاً: شکار کا آلہ چوڑائی کی سمت سے شکار کو لگا یا دبنے کی وجہ سے جانور مرا تو اسے کھانا حلال نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس صورت میں یہ جانور موقوذہ شمار ہو گا۔

-بندوق کے ذریعے شکار کرنا حلال ہے، چنانچہ اگر آپ پرندے ، خرگوش یا ہرن وغیرہ کو بندوق سے نشانہ لگائیں، اور فائر کرتے وقت اللہ کا نام بھی لیں تو یہ حلال ہو گا چاہے آپ کے پہنچنے تک شکار مر جائے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (121239 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

-زہر آلود تیر سے شکار کرنا فقہائے کرام کے ہاں اس وقت جائز نہیں ہے جب یقین ہو، یا گمان ہو یا احتمال ہو کہ زہر کی وجہ سے شکار کی موت واقع ہوئی ہے؛ کیونکہ یہاں جانور کو قتل کرنے کے لیے حرام اور جائز دو ذرائع اکٹھے ہو گئے ہیں، تو یہاں حرام کو زیادہ مؤثر قرار دیتے ہوئے اس شکار کو کھانا جائز نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح کہ مجوسی اور مسلمان دونوں کا تیر کسی شکار کو اکٹھے لگے تو مسلمان کے لیے اس شکار کو کھانا جائز نہیں ہے۔ لیکن یہ یقین ہو جائے کہ کسی بھی ذریعے سے مجوسی کا تیر شکار کے مرنے کا باعث نہیں بنا ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔

دوم: شکاری جانور

شکاری جانور جسے شکار کرنے کا طریقہ سکھایا گیا ہو تو اس کے ذریعے شکار کرنا جائز ہے، یہ شکاری کتا بھی ہو سکتا ہے، یا کوئی اور درندہ اور پرندہ بھی ہو سکتا ہے جس کے کچلی والے دانت ہوں یا پنجے سے پکڑتا ہو، چنانچہ شکاری کتا، چیتا، شیر ، ببر شیر، باز اور دیگر تمام شکاری جانوروں کا ایک ہی حکم ہے مثلاً: شاہین، عقاب اور صقر وغیرہ انہیں قرآن کریم میں "جوارح" کہا گیا ہے۔

تو اس حوالے سے قاعدہ یہ ہے کہ: ہر ایسا جانور جسے سدھایا جا سکتا ہو، اور اسے شکار کرنے کا طریقہ سکھایا جائے تو اسے بطور شکاری جانور استعمال کرنا جائز ہے۔

شکاری جانور میں درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

-شکاری جانور کو شکار کا طریقہ سکھایا گیا ہو، یہ شرط تمام فقہائے کرام کے ہاں متفقہ ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: { وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ} ترجمہ: اور جوارح میں سے جسے تم شکار سکھاؤ ۔ [المائدہ: 4]

-شکاری جانور شکار کے جسم پر کسی بھی جگہ سے اسے زخمی کر دے۔ یہ مالکی اور حنبلی فقہائے کرام کے ہاں شرط ہے، اور یہی موقف احناف کے ہاں ظاہر الروایہ اور مفتی بہ قول ہے، جبکہ شافعی فقہائے کرام کے ہاں راجح موقف اس کے خلاف ہے۔

اس شرط کی بنا پر: اگر شکاری جانور شکار کو ٹکر مار کر قتل کر دے، یا زخم کیے بغیر کاٹ کر قتل کر دے، تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے، اس کا حکم چوڑائی کی سمت لگنے والے ڈنڈے والا ہے کہ چوڑائی کی سمت میں ڈنڈا لگ کر یا وزن کی وجہ سے دب کر مرنے والے جانور جیسا ہو گا۔ اسی طرح اگر شکاری کتے کو شکار کے لیے چھوڑا کتے نے شکار کو پکڑ کر اس کی گردن توڑ دی اسے زخمی نہ کیا، یا شکار کے اوپر بیٹھ کر اس کا سانس بند کر دیا تو اسے کھانا بھی جائز نہیں ہو گا۔

-شکار کے لیے شکاری جانور کو کسی مسلمان یا اہل کتاب میں سے کسی نے اللہ کا نام لیتے ہوئے چھوڑا ہو، چنانچہ اگر شکاری جانور خود ہی بھاگ پڑا، یا مالک کے ہاتھ سے نکل گیا، یا شکاری جانور چھوڑتے ہوئے تکبیر کہنا بھول گیا اور شکاری جانور نے شکار پکڑ کر اسے مار دیا تو پھر اسے کھانا جائز نہیں ہے۔ یہ اجمالی طور پر حکم ہے۔

-شکاری جانور شکار کے لیے چھوڑے جانے کے بعد کسی اور کام میں مصروف نہ ہو، یعنی مطلب یہ ہے کہ شکار ، شکاری جانور کو چھوڑے جانے کی وجہ سے شکار ہو۔ یہ شرط حنفی اور مالکی فقہائے کرام کے ہاں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔

-فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کسی جانور کے شکار میں ایسے افراد جمع ہو جائیں جن کا شکار حلال ہے جیسے کہ مسلمان اور عیسائی اور ایسے لوگ جن کا شکار حلال نہیں ہے جیسے کہ مجوسی یا بت پرست وغیرہ تو پھر ایسے شکار کو کھانا حلال نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں محتاط موقف اپناتے ہوئے حرمت کا حکم لگایا جائے گا۔

اس بنا پر اگر کوئی مجوسی اور مسلمان دونوں مل کر شکار کریں، مثلاً دونوں نشانہ لگائیں، یا شکاری جانور چھوڑیں تو شکار حرام ہو گا؛ کیونکہ شکار میں حرام اور حلال دونوں ذرائع موجود ہیں تو یہاں حرام ذریعے کو ترجیح دی جائے گی۔

دیکھیں: "الموسوعة الفقهية" (28/ 117-142)

سوم:
اگر ملکی قوانین کی رو سے کہیں پر شکار کرنے کی ممانعت ہو تو پھر وہاں شکار کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس طرح ملکی قوانین کی مخالفت ہو گی اور آپ اس ملک کا ویزا لیتے ہوئے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ اس ملک کے قوانین کا احترام کریں گے، پھر کسی بھی ملک کی انتظامیہ جب تک کوئی ان کے قوانین کا احترام نہ کرے تو اسے اپنے ملک میں آنے کی اجازت نہیں دے گی، اور عام طور پر شکار پر پابندی سب لوگوں کی خیر خواہی کے طور پر لگائی جاتی ہے، اس لیے اس پابندی کا خیال رکھنا لازمی ہے۔

اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اس قانون کی پاسداری لازم نہیں ہے تو پھر قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا بھگتنی پڑے گی، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ملک بدر ہونا پڑے، اور کوئی بھی عقل مند انسان ایسا اقدام نہیں کرتا جس سے اس کا ذاتی اور اہل خانہ کا نقصان ہو۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب