جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

محرم اور عورتوں كے سامنے تنگ لباس پہننے كا حكم

14302

تاریخ اشاعت : 23-12-2007

مشاہدات : 6277

سوال

محرم مردوں اور عورتوں كے سامنے تنگ لباس پہننے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ايسا لباس زيب تن كرنا جس سے عورت كے جسم كے پرفتن مقامات اور اعضاء ظاہر ہوں حرام ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جہنميوں كى دو قسميں ايسى ہيں جنہيں ميں نے اب تك نہيں ديكھا: ايسے مرد جن كے ہاتھوں ميں گائے كى دم جيسے كوڑے ہونگے جس سے وہ لوگوں كو مارينگے ـ يعنى ظلم و زيادتى كے ساتھ ـ اور ايسى عورتيں جنہوں نے لباس تو پہن ركھا ہو گا ليكن وہ درحقيقت ننگى ہونگى، اور خود دوسروں كى جانب مائل ہونے والى اور دوسروں كو اپنى جانب مائل كرنے والى ہونگى "

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان:

" ايسى عورتيں جنہوں نے لباس تو پہن ركھا ہو گا ليكن وہ درحقيقت ننگى ہونگى "

كى شرح يہ كى گئى ہے كہ: وہ اتنا مختصر اور چھوٹا لباس زيب تن كرينگى جو ان كا ستر بھى نہيں ڈھانپےگا، جسے ڈھانپنا واجب ہے، اور يہ شرح كى گئى ہے كہ: وہ لباس اتنا باريك اور خفيف ہو گا كہ اس كے نيچے سے جلد كى رنگت تك نظر آ رہى ہو گى، اور يہ شرح كى گئى ہے كہ: وہ عورتيں ايسا تنگ لباس زيب تن كرينگى جو ديكھنے كے اعتبار سے تو ساتر ہو گا، ليكن عورت كے جسم كے پرفتن اعضاء اورمقامات كو ظاہر كر رہا ہو گا.

اس بنا پر عورت كے ليے يہ تنگ لباس زيب تن كرنا جائز نہيں، صرف ايسا لباس اس كے سامنے ہى پہنا جا سكتا ہے جس كے سامنے وہ اپنا ستر كھول سكتى ہے، اور وہ صرف ا سكا خاوند ہى ہے، كيونكہ خاوند اور بيوى كے مابين كوئى ستر اور پردہ نہيں.

اس كى دليل يہ فرمان بارى تعالى ہے:

مگر اپنے خاوندوں كے سامنے، يا پھر اپنى لونڈيوں پر تو انہيں كوئى ملامت نہيں .

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں:

" ميں اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك ہى برتن سے غسل ـ يعنى غسل جنابت ـ كيا كرتے تھے، اور ہمارے ہاتھ ايك دوسرے كو لگتے تھے "

اس ليے انسان اور اس كى بيوى كے مابين كوئى ستر اور پردہ نہيں، ليكن عورت كے ليے اپنے محرم مردوں كے سامنے ستر كو چھپانا واجب ہے، اور تنگ لباس اگر اتنا تنگ ہو كہ عورت كے پرفتن مقامات اور اعضاء ظاہر ہوتے ہوں تو عورتوں كے سامنے ايسا لباس پہننا جائز ہے، اور نہ ہى محرم مردوں كے سامنے. اھ.

ماخذ: فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ ديكھيں: فتاوى نسائيۃ صفحہ ( 44 )