منگل 14 شوال 1445 - 23 اپریل 2024
اردو

عورت کے لیے اپنے بال خوبصورتی کے طور پر کاٹنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال

میں نے بہت زیادہ سنا ہے کہ عورت کے لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق بال کاٹنا جائز نہیں ہے؛ تو میں اس کی وجہ سمجھنا چاہتی ہوں، حالانکہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ عورت کو وقتاً فوقتاً بال کاٹنے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے، تو کیا اس مسئلے کی تفصیل مل سکتی ہے؟ میں نے سنا ہے کہ عورت پر اپنے بالوں کو جس قدر ممکن ہو سکے لمبا کرے، اور اپنے بال نہ تو منڈوائے اور نہ ہی کتروائے؛ کیونکہ اس طرح عورت کے لمبے بال روزِ قیامت اس وقت پردے کا باعث بنیں گے جب قیامت کے دن سب برہنہ اٹھائے جائیں گے، تو کیا یہ بات صحیح ہے؟ اور کیا اس بات کی کوئی دلیل ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اہل علم نے خواتین کے لیے سر کے بال کاٹنے کی حرمت پر صراحت سے لکھا ہے اور اس حرمت کے درج ذیل حالات ہیں:

  1. اگر عورت اپنے کٹے ہوئے بالوں کو اجنبی لوگوں کے سامنے کھلا رکھے۔
  2. اگر عورت اپنے بالوں کو کٹوا کر کافر عورتوں یا فاسق خواتین کی مشابہت اختیار کرنا چاہتی ہو۔
  3. اگر عورت اپنے بال ایسے انداز سے کٹوائے جس سے مردوں کے بالوں جیسی صورت بن جائے۔
  4. عورت کے بال کوئی اجنبی مرد کاٹے، اور عام طور پر سیلون پر اجنبی مرد ہی بال کاٹتے ہیں۔
  5. اگر عورت اپنے بال خاوند کی اجازت کے بغیر کٹوائے۔

مندرجہ بالا حالات میں خواتین کے لیے بال کٹوانا حرام ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، اور ان حالات میں بال کٹوانے کی حرمت بھی واضح ہے۔

دوم:

اگر خاتون کا بال کٹوانے کا مقصد خاوند کو خوش کرنا ہے، یا انتہائی لمبے بالوں کی دیکھ بھال میں آنے والی مشقت میں کمی کرنا مقصود ہے، یا اس کے علاوہ کوئی معقول اور جائز وجہ ہو تو پھر بال کٹوانے میں علمائے کرام کے صحیح موقف کے مطابق کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ عادات کے متعلق بنیادی قاعدہ یہی ہے کہ جب تک عادات کے متعلق حرمت کی نص نہیں آتی اس وقت تک ان کا حکم مباح ہوتا ہے؛ اور شریعت میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے جس میں عورت کو بال کاٹنے سے منع کیا گیا ہو، بلکہ شریعت میں ایسے دلائل موجود ہیں جو بال کاٹنے کے جواز پر دلالت کرتے ہیں، جیسے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ کی روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ: "نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں اپنے سر کے بالوں کو اتنا کاٹ دیتی تھیں کہ وہ وفرہ بن جاتے تھے" مسلم: (320)

حدیث کے عربی الفاظ میں: "الوفرة" سے مراد ایسے بال ہیں جو کندھوں سے قدرے لمبے ہوں، اس کے معنی میں یہ بھی قول ہے کہ جو بال کانوں کی لو تک پہنچیں انہیں وفرہ کہتے ہیں۔

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کے بعد لکھتے ہیں:
"اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت اپنے بالوں کو کاٹ سکتی ہے" ختم شد
" شرح مسلم " (4/5)

ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عورت کا اپنے سر کے بال کاٹنے کے حوالے سے یہ ہے کہ بعض اہل علم نے اسے مکروہ قرار دیا ہے، اور بعض نے اسے حرام قرار دیا اور کچھ نے اسے جائز کہا ہے۔

تو چونکہ یہ مسئلہ اہل علم کے مابین اختلافی ہے تو ہمیں کتاب و سنت کی جانب رجوع کرنا چاہیے، لہذا مجھے اب تک ایسی کسی دلیل کا علم نہیں ہے، جس میں عورت کے لیے سر کے بالوں کو کاٹنا حرام ہو، اس لیے سر کے بالوں کو کاٹنا اصولی طور پر مباح ہو گا، اور اس میں رواج کو معتبر مانا جائے گا، چنانچہ پہلے زمانے میں عورتیں لمبے بال رکھنا پسند کرتی تھیں اور لمبے بالوں کی وجہ سے ناز بھی کرتی تھیں، خواتین اپنے بالوں کو شرعی یا جسمانی ضرورت کی بنا پر ہی کاٹتی تھیں، لیکن اس وقت عورتوں کے افکار بدل چکے ہیں، اس لیے حرمت کا موقف کمزور ہے، اس کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے، جبکہ کراہت کا موقف بھی غور و فکر کا متقاضی ہے، جبکہ بال کاٹنے کی اباحت کا موقف قواعد اور اصولوں کے مطابق ہے، ویسے بھی صحیح مسلم میں روایت موجود ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد اپنے سر کے بالوں کو اتنا کاٹ دیتی تھیں کہ وہ وفرہ بن جاتے تھے ۔

لیکن اگر کوئی عورت اپنے بال اتنے زیادہ کاٹ دیتی ہے کہ وہ مردوں جیسے لگنے لگتے ہیں تو اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسی خواتین پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں جیسی شکل و شباہت اختیار کریں۔

اسی طرح اگر کوئی عورت بالوں کو اس انداز سے کاٹتی ہے کہ کافر اور حیا باختہ عورتوں کی مشابہت ہو ، تو اس کے بارے میں یہ ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے۔

لیکن اگر کوئی عورت معمولی بال کاٹتی ہے کہ بال مردوں کے بالوں جیسے نہ لگیں ، نہ ہی کافر اور حیا باختہ عورتوں جیسے بال نظر آئیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے" ختم شد
"فتاوی نور علی الدرب" (فتاوى الزينة والمرأة/ قص الشعر) ( کیسٹ نمبر: 336 ، بی سائید)

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (1192) ، (13248) اور (13744) کا جواب ملاحظہ کریں۔

سوم:

یہ جو کہا جاتا ہے کہ عورت کے لمبے بال روزِ قیامت پردے کا باعث بنیں گے، تو اس کے متعلق احادیث اور آثار وغیرہ میں کوئی بات نہیں ملی، بلکہ اہل علم کی بھی ایسی کوئی گفتگو سامنے نہیں آئی، اس لیے ایسی بات کی تصدیق سے پہلے اور اس کے شریعت میں ثبوت ملنے سے قبل اسے بیان کرنے یا ایسا کچھ نظریہ رکھنے سے بچنا چاہیے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب