ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

ائیر پورٹ پر مسافروں کی طرف سے چھوڑے گئے سامان کا کیا کریں؟

سوال

میں ائیر لائن کمپنی میں بطور پائلٹ کام کر رہا ہوں، کل میں نے اپنی فلائٹ کو جدہ ، سعودی عرب لے کر جانا تھا، وہاں پر میرا ایک گھنٹے کا اسٹاپ تھا، تو میں نے جدہ ائیر پورٹ کے ملازمین سے پوچھا کہ ان کے پاس زمزم ہے یا نہیں؟ تو اس نے کہا: ہاں میرے پاس زمزم ہے۔ میں نے پوچھا: آپ کہاں سے لائے ہو؟ تو اس نے کہا کہ ائیر پورٹ پر بہت زیادہ زمزم کا پانی ہوتا ہے، جو کہ کئی وجوہات کی بنا پر یہاں رہ جاتا ہے، مثلاً: مسافر نے پانی جمع ہی نہیں کروایا، یا پانی جمع تو کروایا تھا لیکن اس پر لگی ہوئی معلوماتی چٹ اتر گئی، یا پھر فلائیٹ ہی کینسل ہو گئی ۔۔۔ یا اسی طرح کے اور بھی کئی اسباب ہو سکتے ہیں، بہ ہر حال آپ یہ حتمی رائے نہیں دے سکتے کہ پانی کیوں رہ گیا؟ تو اس کے بعد اس پانی کو ائیر پورٹ پر ہی رکھا جاتا ہے، اگر اسے استعمال نہ کیا جائے تو پھر اسے ضائع کر دیا جائے گا، تو کیا میں آئندہ جب کبھی جدہ جاؤں تو زمزم وہاں سے لے سکتا ہوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسافر جس پانی کو ائیر پورٹ پر بھول گیا ہے یا چھوڑ گیا ہے ، اس کے ساتھ اگر اور سامان بھی ہے جس پر مسافر کی معلومات درج ہیں اور وہ ائیرلائن کمپنی کے پاس ہے تو ایسی صورت میں مسافر کا انتظار کیا جائے کہ وہ آ کر اپنا سامان بمع پانی لے جائے، لیکن جب یہ یقین ہو جائے کہ یہ شخص واپس نہیں آئے گا، یا اس کا واپس آنا ممکن نہ ہو، یا پھر پانی خراب ہونے کا خدشہ ہو تو اسے فروخت کر دیا جائے اور اس کی قیمت متعلقہ مسافر کی طرف سے صدقہ کر دی جائے۔

متعلقہ ائیر لائن کمپنی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مسافر کے ساتھ ہونے والے ایگریمنٹ میں جو مدت لکھی گئی ہے کم از کم اتنی مدت مسافروں کے سامان کی حفاظت ضروری ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دھوبی کی دکان پر ایسے کافی کپڑے ہیں جنہیں دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے، اور ان کے مالکان کا کوئی اتا پتا نہیں ہے، واضح رہے کہ دھوبی کی طرف سے وصولی کی رسید پر یہ بات واضح ہے کہ دو ماہ کے بعد ان کپڑوں کا وہ ذمہ دار نہیں ہو گا، تو کیا دو ماہ کے بعد دھوبی انہیں اپنے قبضے میں لے سکتا ہے؟ چاہے استعمال کے لیے یا فروخت کرنے کے لیے یا صدقہ کرنے کے لیے ؟ پھر اگر دھوبی انہیں استعمال کر لیتا ہے اور بعد میں اس کا مالک آ کر کپڑوں کا مطالبہ کرتا ہے تو کیا اس کی قیمت ادا کرنا ضروری ہو گا یا نہیں؟
جواب:
اگر کپڑوں کے بارے میں یہ پہلے ہی طے ہے کہ دو ماہ کے بعد دھوبی ذمہ دار نہیں ہے، تو کپڑوں کے مالک کا مقررہ مدت کے بعد کوئی حق نہیں ہے؛ کیونکہ وہی لیٹ ہوا ہے، چنانچہ دو ماہ گزر جانے کے بعد دھوبی چاہے تو مستحق افراد کو صدقہ کر دے ، یا بیچ دے اور قیمت صدقہ کر دے۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ دو ماہ کے بعد 10، 15 دن مزید انتظار کر لے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ کپڑوں کا مالک آ تو رہا تھا لیکن اس کی گاڑی خراب ہو گئی، یا وہ بیمار ہو گیا تھا اس لیے لیٹ ہو گیا تو افضل یہ ہے کہ کچھ مزید انتظار کر لے۔" ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (215 / 11)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"اگر دکاندار اور گاہک کے درمیان ایک وقت مقرر تھا، اور مقررہ وقت ختم ہونے پر دکاندار کو اجازت ہے کہ ان چیزوں کو صدقہ کر دے یا بیچ کر قیمت اللہ کی راہ میں دے دے۔

لیکن اگر دونوں کے درمیان کوئی وقت متعین تو نہیں تھا، اس لیے ایک ماہ یا دو ماہ کے بعد فروخت کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک مالک کے واپس آنے کی امید ختم نہ ہو جائے، چنانچہ جب امید ختم ہو جائے تو وہ آزاد ہے؛ کیونکہ دکاندار کے لیے یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ہمیشہ کے لیے ان کپڑوں اور بستروں کو سنبھال کر رکھے۔" ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (215 / 19)

چنانچہ اگر زمزم کا پانی مسافر کے کسی اور سامان کے ساتھ منسلک نہیں ہے، فلائٹ کا وقت گزر چکا ہے، یا پانی پر کسی بھی قسم کی معلومات نہیں ہیں، نیز ائیر پورٹ پر پانی اتنی دیر سے موجود ہے کہ یقین ہو جائے کہ مسافر یہاں سے چلا گیا ہو گا، یا خود ہی چھوڑ گیا ہو گا، یا اس کی فلائٹ جا چکی ہو گی ، تو ایسی صورت میں پائلٹ یا دیگر ائیر پورٹ عملہ اس پانی کو استعمال کر سکتا ہے کیونکہ یہ غیر معقول بات ہے کہ مسافر صرف پانی کے لیے ائیر پورٹ تک واپس آئے گا۔ اس صورت میں اس پانی کا حکم معمولی لقطہ (گری پڑی چیز) والا ہو گا، یا ایسی چیز والا ہو گا جس کو اس کے مالک نے معمولی سمجھ کر چھوڑ دیا ہے، اور ایسی چیزوں کا حکم یہ ہے کہ ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

اور اگر ذمہ داران اس پانی کو ائیر پورٹ عملے یا مسافروں میں تقسیم کرنے کے لیے انتظام کریں تو یہ ان شاء اللہ اچھا اقدام ہو گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب