جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

صدقہ جاریہ کسے کہتے ہیں؟

سوال

میں صدقہ جاریہ کی آسان آسان سی مثالیں جاننا چاہتا ہوں، مجھے یہ بھی بتلائیں کہ میں رمضان اور غیر رمضان میں اپنی رقم کس مد میں خرچ کروں؟ روزہ افطاری؟ یا یتیم کی کفالت، یا بوڑھوں کے لیے قائم اولڈ ایج ہوم وغیرہ پر خرچ کروں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

صدقہ جاریہ در حقیقت وقف کو کہتے ہیں، اور یہی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب انسان فوت ہو جائے تو اس کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین اعمال کے: صدقہ جاریہ، یا علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔) مسلم: (1631)

امام نوویؒ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"صدقہ جاریہ سے مراد وقف ہے۔" " شرح مسلم " (11/85)

علامہ خطیب شربینیؒ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کے ہاں حدیث میں صدقہ جاریہ سے مراد وقف کرنا ہے، جیسے کہ رافعیؒ نے بھی یہی بیان کیا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ وقف کے علاوہ جتنی بھی صدقات کی شکلیں ہیں وہ ہمیشہ جاری نہیں رہتیں" "مغني المحتاج" (3/522-523)

صدقہ جاریہ کا ہی ثواب انسان کی موت کے بعد جاری و ساری رہتا ہے، چنانچہ جس صدقے کا ثواب جاری و ساری نہ رہے تو وہ صدقہ جاریہ نہیں رہتا، مثلاً: کسی فقیر کو کھانا کھلا دیں تو یہ صدقہ جاریہ نہیں ہو گا۔

اس بنا پر: روزہ افطاری، یتیموں کی کفالت، اور معمر افراد کی دیکھ بھال اگرچہ صدقات میں آتی ہیں؛ لیکن یہ صدقہ جاریہ نہیں ہیں، تاہم آپ دار الایتام یا دار المعمرین کی عمارت بنانے کے لیے حصہ ڈال سکتے ہیں، اس طرح یہ صدقہ جاریہ ہو جائے گا، اور جب تک یہ عمارت کام آئے گی اس کا ثواب آپ کو ملتا رہے گا۔

صدقہ جاریہ کی اقسام اور امثلہ بہت زیادہ ہیں: مثلاً: مسجد کی تعمیر، درخت لگانا، پانی کا نل لگوانا، قرآن کریم پرنٹ کروا کر اسے تقسیم کرنا، علم نافع کی کتب کیسٹس وغیرہ تیار کروا کر تقسیم کرنا۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مومن کو موت کے بعد جن اعمال کا ثواب پہنچتا رہتا ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں: جو علم سکھایا اور پھیلایا، نیک اولاد جسے دنیا میں چھوڑ آیا، قرآن کریم کا نسخہ جو اس نے ترکے میں چھوڑا، یا مسجد بنائی، یا مسافر خانہ تعمیر کروایا، یا نہر جاری کروائی، یا اپنی صحت اور زندگی میں اپنے مال سے نکالا ہوا صدقہ یہ سب اعمال مومن کی موت کے بعد مومن تک پہنچتے رہتے ہیں۔) ابن ماجہ: (242) علامہ منذریؒ نے اسے "الترغیب و الترہیب" میں بیان کیا ہے (1/78)۔ اور اس کی سند حسن ہے، البانیؒ نے اس کی سند کو صحیح ابن ماجہ میں حسن قرار دیا ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر:  (43101 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

ویسے مسلمان کو اپنا صدقہ و خیرات متعدد جگہوں پر خرچ کرنا چاہیے، تا کہ اس کے کھاتے میں ہمہ قسم کی نیکی شامل ہو جائے، لہذا کچھ حصہ روزوں کی افطاری پر خرچ کرے، کچھ حصہ یتیموں کی کفالت پر لگائے، اور کچھ حصہ معمر افراد کی دیکھ بھال کے لیے مختص کر دے، مساجد کی تعمیر اور کتب ، ایسے ہی قرآن کریم کی تقسیم میں بھی حصہ ڈالے اور دیگر خیر کے کاموں میں بھی تعاون کرے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب