بدھ 27 ذو الحجہ 1445 - 3 جولائی 2024
اردو

صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کرنے کا حکم

11199

تاریخ اشاعت : 30-06-2024

مشاہدات : 236

سوال

نمازی مسجد میں داخل ہوا اور جماعت کھڑی تھی، لیکن صف میں مزید نمازی کی جگہ نہ ہو تو کیا پیچھے اکیلے صف میں کھڑے ہو کر نماز ادا کر سکتا ہے؟ یا پھر اگلی صف میں سے کسی نمازی کو کھینچ لے اور نئی صف بنائے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

امام احمد کے مشہور موقف، اور متعدد محققین کے اختیار کردہ موقف کے مطابق صف کے پیچھے اکیلے نمازی کی نماز صحیح نہیں۔

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے اس مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس سوال کے جواب میں تفصیلات کے ساتھ وضاحت فرمائی اور کہا:
"اس مسئلے کے بارے میں گفتگو کے دو پہلو ہیں:

ایک پہلو: کیا اکیلے مرد نمازی کی نماز صف کے پیچھے ہو جائے گی؟

دوسرا پہلو: اور اگر ہم کہتے ہیں کہ اکیلے مرد کی نماز صف کے پیچھے نہیں ہوتی ، اور اگلی صف میں کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہیں ہے تو وہ اب کیا کرے؟

تو پہلے پہلو کے بارے میں علمائے کرام کی مختلف آرا ہیں:

کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ صف کے پیچھے اکیلے مرد نمازی کی نماز ہو جائے گی چاہے پیچھے کھڑے ہونے کا کوئی عذر ہو یا نہ ہو، لیکن کچھ اہل علم نے اسے بغیر عذر کی صورت میں مکروہ کہا ہے، یہ موقف تینوں ائمہ کرام مالک، شافعی اور ابو حنیفہ رحمہم اللہ کا ہے۔

ان کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح صف کے پیچھے اکیلی عورت کی نماز صحیح ہو جاتی ہے تو اسی طرح مرد کی بھی ہو جائے گی ؛ ان کا کہنا ہے کہ شرعی احکامات میں مرد اور عورت دونوں ہی یکساں ہیں۔

اور یہ بھی دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا تھا جب انہوں نے صف میں داخل ہونے سے پہلے ہی رکوع کر لیا تھا، ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح بخاری: (783) میں ہے۔

پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بار سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو دوران نماز اپنے پیچھے سے گھما کر اپنی دائیں جانب کھڑا کیا تھا جو کہ صحیح بخاری: (117) اور مسلم: (763) میں موجود ہے؛ لہذا اگر نماز کے کچھ حصے میں صف کے پیچھے اکیلے ہونا جائز ہے تو پوری نماز میں بھی صف کے پیچھے اکیلے ہونا جائز ہے؛ کیونکہ اگر صف کے پیچھے اکیلے ہونے سے نماز باطل ہوتی تو پھر تھوڑے اور زیادہ وقت میں کوئی فرق نہ ہوتا، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے تھوڑی دیر کے لیے امام کے آگے کھڑے ہونے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔

انہوں نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کرنے سے روکنے والی احادیث کا جواب کچھ یوں دیا ہے کہ ان احادیث میں نفی کمال ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ احادیث ایسے ہی ہیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان ہے: (کھانا حاضر ہو تو نماز نہیں ہوتی) اس حدیث کو امام مسلم: (560) نے روایت کیا ہے۔ ایسی دیگر روایات بھی ہیں۔

جبکہ کچھ علمائے کرام کہتے ہیں کہ صف کے پیچھے اکیلے مرد نمازی کی نماز صحیح نہیں ہے، یہ موقف امام احمد کے شاگردوں کے ہاں امام احمد کا مشہور ترین موقف ہے، اور یہ امام احمد کے تفردات میں سے ہے، جبکہ ایک روایت کے مطابق امام احمد کا موقف ائمہ ثلاثہ کے ہمراہ بھی ہے۔

اس موقف کے قائلین نے منقول اور معقول دو طرح کے دلائل دئیے ہیں:

منقول دلیل امام احمد رحمہ اللہ مسند احمد: (15862) میں علی بن شیبان رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب اس نے نماز مکمل کر کے منہ موڑا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم اپنی نماز شروع سے پڑھو؛ کیونکہ اکیلے مرد نمازی کی صف کے پیچھے نماز نہیں ہوتی) یہ حدیث حسن درجے کی ہے اور اس کے شواہد اتنے ہیں کہ جن سے یہ حدیث صحیح کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔

جبکہ عقلی دلیل یہ ہے کہ: جماعت کا مطلب اکٹھے ہونا ہے؛ جو کہ جگہ اور عمل دونوں میں اکٹھے ہونے سے ممکن ہو گا، لہذا امام کی اقتدا کرتے ہوئے مقتدی حضرات عمل میں اکٹھے ہوں گے، جبکہ جگہ میں اکٹھے ہونے کے لیے صف ایک ہونی چاہیے، لہذا اگر ہم یہ کہہ دیں کہ اکیلا مرد نمازی بھی صف بنا سکتا ہے تو پھر اجتماعی اکٹھ کی صورت کیسے بنے گی۔۔۔

پھر انہوں نے پہلے موقف والوں کے دلائل کا جواب دیا ہے کہ عورت کے لیے مردوں کے پیچھے اکیلے صف میں نماز ادا کرنے کا جواز خواتین کا خاصہ ہے، جیسے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ: (میں اور یتیم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے صف میں کھڑے ہو گئے اور بوڑھی خاتون ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئی۔) [اس حدیث کو بخاری: (234) اور مسلم: (658) نے روایت کیا ہے۔ ]نیز یہ بھی وجہ ہے کہ عورت مردوں کے پہلو میں نہیں کھڑی ہو سکتی۔

جبکہ سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو کچھ ذکر ہوا ہے اس میں آپ تھوڑی سی دیر ہی صف کے پیچھے اکیلے رہے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں آئندہ ایسا نہ کرنے کی تلقین بھی فرمائی تھی۔

اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ وہ صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہوئے ہیں، بلکہ اس میں تو یہ ہے کہ آپ کھڑے نہیں ہوئے بلکہ گزرے ہیں۔

اور ان کا یہ کہنا کہ نماز کی نفی سے مراد نفی کمال ہے تو یہ دعوی بلا دلیل ہے؛ کیونکہ نفی میں اصل وجود کی نفی ہوتی ہے، اور اگر وجود کی نفی ممکن نہ ہو تو نفی صحت ہوتی ہے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر نفی کمال ہوتی ہے، چنانچہ حدیث: (اکیلے مرد نمازی کی صف کے پیچھے نماز نہیں ہوتی) کو نفی صحت پر محمول کرنا ممکن ہے اس لیے اس حدیث کو نفی صحت پر محمول کرنا واجب ہے۔

جبکہ نظائر پیش کرتے ہوئے اسے حدیث مبارکہ: (کھانا حاضر ہونے کی صورت میں کوئی نماز نہیں۔) جیسی حدیث قرار دینا بھی صحیح نہیں ہے؛ اس کی دو وجہ ہیں:
پہلی وجہ: جب کھانا آ جائے تو دل کھانے کی طرف ہی متوجہ رہے گا، اور جب دل نماز میں نماز کی بجائے کہیں اور مشغول ہو تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی، جیسے کہ وسوسہ والی حدیث میں ہے کہ شیطان نمازی کے پاس آ کر کہتا ہے: فلاں چیز یاد کرو، فلاں چیز یاد کرو، یہ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو اسے یاد نہیں ہوتیں؛ تو انسان یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اس نے کتنی رکعتیں ادا کر لی ہیں۔ [اس حدیث کو امام بخاری: (608) اور مسلم : (389) نے روایت کیا ہے۔ ]

دوسری وجہ: حدیث مبارکہ: (اکیلے مرد نمازی کی صف کے پیچھے کوئی نماز نہیں۔) اس میں صراحت ہے کہ اس نفی سے مراد نفیِ صحت ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صحابی کو حکم دیا کہ اپنی نماز شروع سے شروع کرے، اور پھر اس کی وجہ یہ بیان کی کہ: اکیلے شخص کی صف کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔

اسی طرح وابصہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے دوبارہ نماز ادا کرنے کا حکم دیا۔ [ابو داود: 682، اور ترمذی: 230 نے اسے روایت کیا ہے۔]

تو اس سے واضح ہوا کہ راجح قول یہ ہے کہ صف میں کھڑے ہونا واجب ہے، لہذا اگر کوئی شخص صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کرے تو اس کی نماز باطل ہے، اور اس پر لازم ہے کہ صف بندی کے واجب عمل کو چھوڑنے کی وجہ سے نماز دوبارہ پڑھے۔

تاہم صف بندی کی یہ شرط دیگر شرائط کی طرح ہے کہ اگر اسے ادا کرنے کی جگہ نہ ہو ، یا شرعی یا حسی عجز کی وجہ سے ادائیگی نہ کر سکتا ہو تو یہ واجب ساقط ہو جائے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُم ترجمہ: تم حسب استطاعت اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرو۔ [التغابن: 16]

اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی فرمان ہے کہ: (جب میں تمہیں کسی کام کو کرنے کا حکم دوں تو اس پر اپنی استطاعت کے مطابق عمل کیا کرو۔) [اس حدیث کو امام بخاری: (7288) اور مسلم : (1337) نے روایت کیا ہے۔ ] اس لیے اگر اسے اگلی صف میں جگہ ملے تو وہاں ہی کھڑا ہو، لیکن اگر اگلی صف میں جگہ نہ ملے تو پھر صف میں کھڑے ہونے کا واجب حکم ساقط ہو جائے گا، اسی طرح اگر شرعی طور پر اس کے لیے جگہ نہ ہو تو تب بھی یہ واجب ساقط ہو جائے گا۔

پہلی صورت کی مثال: جب پہلی صف مکمل ہو جائے تو ایسی صورت میں نمازی اکیلے نماز ادا کر سکتا ہے؛ کیونکہ جب واجب کی ادائیگی سے عجز پایا جائے تو واجب بھی ساقط ہوتا ہے۔

دوسری صورت کی مثال: اگر کوئی عورت مردوں کے ساتھ ہو تو وہ پچھلی صف میں اکیلے ہی نماز ادا کرے گی، جیسے کہ عورت کے لیے یہ طریقہ حدیث مبارکہ میں بیان ہوا ہے۔ بلکہ اگر مرد کو اگلی صف میں جگہ نہ ملے تو اس صورت میں عورت کے اکیلے نماز پڑھنے والی حدیث کو مرد کے لیے بھی دلیل بنایا جا سکتا ہے جیسے عورت اکیلے نماز پڑھ سکتی ہے اسی طرح مرد بھی اکیلے صف میں نماز پڑھ سکتا ہے؛ کیونکہ کسی چیز کے حسی طور پر ناممکن ہونے کا جو حکم ہے وہی حکم شرعی طور پر ناممکن ہونے کی صورت میں ہو گا۔

اس کو یوں سمجھیں کہ: جب کوئی مرد نماز با جماعت میں شریک ہونے کے لیے آئے اور اگلی صف اچھی طرح مکمل ہو چکی ہو تو پھر یا تو آگے بڑھ کر امام کے ساتھ کھڑا ہو جائے، یا اگلی صف میں سے کسی کو پیچھے کھینچ کر اس کے ساتھ نئی صف بنا لے، یا جماعت میں شامل ہونے کی بجائے اکیلے ہی نماز ادا کر لے، یا پھر صف میں اکیلے ہی نماز با جماعت پڑھ لے۔

آگے بڑھ کر امام کے ساتھ کھڑے ہونے پر درج ذیل چیزیں لازم آتی ہیں:

1-سنت کی مخالفت ہو گی کہ امام کو اکیلے کھڑے ہونا چاہیے تھا تا کہ امام جگہ اور عمل میں مقتدیوں سے الگ تھلگ ممتاز حیثیت میں نظر آئے۔ لیکن اس پر یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں کھڑے ہوئے تھے [یہ واقعہ صحیح مسلم: 413 میں بیان ہوا ہے۔]؛ کیونکہ یہاں امام اپنے نائب کے پہلو میں آ کر کھڑا ہوا ہے۔ نیز یہاں یہ بھی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ پچھلی صف میں جا ہی نہیں سکتے تھے، نیز اس وقت جماعت کی مصلحت بھی یہی تھی کہ امام کا نائب امام کے پہلو میں ہو تا کہ لوگوں کو تکبیرات صحیح انداز سے سنائی دیں۔

2-جب مقتدی کو اگلی صف مکمل ملے اور امام کے پہلو میں کھڑے ہونے کے لیے صفوں کو چیر کر جائے تو اس میں بہت سے لوگوں کو تکلیف ہو گی۔

3-اس طرح تو بعد میں آنے والا کوئی بھی صف نہیں بنائے گا؛ کیونکہ اگر ایک شخص بھی کھڑا ہوا تو بعد میں آنے والا اس کے ساتھ کھڑے ہو کر صف بنا سکتا تھا۔

آگے والی مکمل صف میں سے کسی کو پیچھے کھینچنے کی وجہ سے تین غیر شرعی چیزیں پائی جاتی ہیں:

پہلی چیز: صف میں شگاف پیدا ہو جائے گا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صفوں میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم دیا ہے اور اس بات سے روکا ہے کہ ہم شیطان کے لیے شگاف چھوڑ دیں۔ [مسند احمد: 5691، ابو داود: 666۔ اسے البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ میں صحیح قرار دیا ہے۔]

دوسری چیز: جس کو آگے والی صف سے پیچھے کھینچا جائے گا یہ اس پر ظلم ہے کہ افضل صف سے کم درجے والی صف میں اسے منتقل کر دیا گیا۔

تیسری چیز: اس سے نمازی کی نماز میں تشویش پیدا ہو گی، اور بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ نماز سے فارغ ہوتے ہی لڑائی جھگڑا شروع ہو جائے۔

اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی حدیث کو بھی بطور اشکال پیش نہیں کیا جا سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کرنے والے سے کہا تھا: (تم اگلی صف میں داخل کیوں نہیں ہوئے یا تم نے اگلی صف سے کسی کو پیچھے کیوں نہیں کھینچ لیا۔) کیونکہ یہ حدیث ہی ضعیف ہے، اور اس کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا، اس حدیث کو طبرانی نے الاوسط (8/374) میں روایت کیا ہے ۔ اور علامہ ہیثمی کہتے ہیں کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے۔

اور جماعت چھوڑ کر اکیلے نماز ادا کرنے کی صورت میں یہ نمازی جماعت کے ساتھ ملنے کی استطاعت کے باوجود جماعت میں شامل نہیں ہو گا جو کہ معصیت ہے۔

اور اگر یہ نمازی صف کے پیچھے اکیلے ہی نماز ادا کر لیتا ہے تو یہی وہ عمل ہے جس کی اس وقت اس نمازی میں استطاعت ہے؛ کیونکہ نماز با جماعت میں نمازی پر دو چیزیں لازم ہوتی ہیں:
پہلی چیز یہ ہے کہ نماز با جماعت ادا کرے۔
اور دوسری یہ ہے کہ نمازیوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہو، چنانچہ اگر کوئی ایک کام ادا کرنا مشکل ہو تو دوسرا ادا کرنا لازم رہے گا۔

اگر کوئی کہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (کسی اکیلے مرد کی صف کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔) یہ عام ہے اور اس میں ایسی کوئی تفصیل نہیں ہے کہ آگے والی مکمل ہو یا نہ ہو۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص صف کے پیچھے اکیلا نماز ادا کرے تو صف بندی کا واجب عمل چھوڑنے کی وجہ سے اس کی نماز باطل ہے؛ لیکن جب نمازی صف میں شامل ہی نہیں ہو سکتا تو صف میں شامل ہونے کا وجوب ساقط ہو جائے گا، پھر یہ بھی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کسی ایسے کام کی وجہ سے نماز کو باطل قرار نہیں دے سکتے جس کام کو کرنے کی نمازی کے پاس صلاحیت ہی نہیں ہے۔

اس کی نظیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان ہے کہ: (اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے سورت فاتحہ نہیں پڑھی) [اس حدیث کو امام بخاری: (756) اور مسلم : (394) نے روایت کیا ہے۔ ] اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس کا وضو نہیں ہے۔) [اس روایت کو امام احمد: 9137، ابو داود: 101 اور ابن ماجہ: 399 نے روایت کیا ہے۔] اگر یہ روایت صحیح ثابت ہے تو جس شخص کو سورت فاتحہ آتی ہی نہیں ہے، یا کوئی شخص وضو کرنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتا تو وہ شخص سورت فاتحہ کے بغیر یا وضو کے بغیر ہی نماز پڑھ لے گا اور اس کا فرض ادا ہو جائے گا، تاہم سورت فاتحہ کی جگہ پر اتنی ہی مقدار میں قرآن کریم کی تلاوت کرے گا، یا اگر اسے قرآن کریم کا کچھ بھی حصہ نہیں آتا تو اتنی ہی دیر اللہ کا ذکر کرتا رہے، اور اگر وضو نہ کر سکے تو تیمم کر لے۔

جواب کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
صف بندی واجب ہے، اگر کوئی شخص آئے اور صف مکمل ہو چکی ہو تو وہ صف کے پیچھے با جماعت نماز ادا کرے گا، اور آگے بڑھتے ہوئے امام کے پہلو میں کھڑے ہونے کے لیے مت جائے، نہ ہی کسی کو اگلی صف سے کھینچ کر پیچھے صف میں کھڑا ہو، نہ ہی نماز با جماعت ترک کرے۔

عذر کی وجہ سے صف میں شامل ہوئے بغیر اکیلے کھڑے ہو کر نماز با جماعت ادا کرنا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف ہے، اور یہی موقف ہمارے شیخ محترم عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کا ہے، جبکہ کچھ اہل علم مطلق طور پر اسے جائز کہتے ہیں۔

والحمد للہ رب العالمین

ماخذ: الاسلام سوال و جواب