جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

کیا حسد پایا جاتا ہے؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟

سوال

کیا اسلام میں حسد کا تصور ہے یا نہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

"حسد: جس شخص سے حسد کیا جا رہا ہے[یعنی :محسود] کو اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والی نعمت کے زائل ہونے کی تمنا کا نام ہے، اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حاسد کے شر سے پناہ حاصل کرنے کا حکم دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (1) مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (2) وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ (3) وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ (4) وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ
ترجمہ: کہہ دو: میں فجر کے وقت روشنی پیدا کرنے والے رب کی پناہ چاہتا ہوں [1] اس کی مخلوقات کے شر سے [2] اور اندھیرے کے شر سے جب وہ پھیل جائے۔ [3]اور گرہوں میں تھتکارنے والیوں کے شر سے [5] اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔ [الفلق: 1- 5]

اور حسد کرنے والے کے حسد سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ: جب حاسد ؛ حسد کا اظہار کرے اور حسد کے اثرات رونما ہونے لگیں اور وہ کوشش کرے کہ محسود شخص کو نقصان پہنچائے۔

حسد کے متعدد درجات ہیں:

پہلا درجہ: انسان اپنے مسلمان بھائی سے نعمت کے زائل ہونے کو پسند کرے چاہے وہ چیز حاسد حاصل نہ کر پائے، یہ شخص اللہ تعالی کے کسی پر انعام کو اچھا نہیں سمجھتا بلکہ اس سے اسے تکلیف ہوتی ہے۔

دوسرا درجہ: انسان اپنے مسلمان بھائی سے نعمت کے زائل ہونے کو پسند کرے اور خود اس چیز کے حصول کی امید رکھے۔

تیسرا درجہ: خود اپنے لیے بھی وہی چیز پسند کرے جو کسی دوسرے کے پاس ہے، لیکن دوسرے سے زائل ہونے کی تمنا نہ کرے، حسد کا یہ درجہ جائز ہے، یہ حسد نہیں ہے بلکہ رشک ہے۔

حاسد انسان اپنے آپ کو تین طرح سے نقصان پہنچاتا ہے۔

اول: حاسد کو گناہ ملتا ہے؛ کیونکہ حسد کرنا حرام ہے۔

دوم: اللہ تعالی کے ساتھ بے ادبی؛ کیونکہ حسد کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کے کسی بندے پر انعام کو اچھا نہیں سمجھتا، اور اللہ تعالی کی اس دَین پر اعتراض کر رہا ہوتا ہے۔

سوم: انسان اپنے آپ کو ہی دکھ اور تکلیف میں مبتلا رکھتا ہے۔

اللہ تعالی عمل کی توفیق دے، درود و سلام ہوں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر آپ کی آل اور صحابہ کرام پر" ختم شد
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء .

الشیخ عبد العزیز بن عبد الله آل الشیخ   الشیخ عبد الله بن غدیان       الشیخ صالح الفوزان   الشیخ بكر أبو زید ۔

"فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء" (26/29)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب