جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

عاشوراء کے روزے کی فضیلت

تاریخ اشاعت : 21-04-2018

مشاہدات : 3827

عاشوراء کے روزے کی فضیلت

 

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على نبينا محمد خاتم الأنبياء وسيد المرسلين وعلى آله وصحبه أجمعين وبعد

عاشوراء کی تاریخ :

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنھما بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تویھودیوں کودیکھا کہ وہ یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ، تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ کیا ہے ؟ وہ کہنے لگے : یہ ایک اچھا دن ہے جس میں اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کواپنے دشمن سے نجات عطا فرمائي تھی ، لھذا موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

( میں تم سے زيادہ موسی علیہ السلام کا حقدار ہوں ، لھذا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کاخود بھی روزہ رکھا اورروزہ رکھنے کا حکم بھی دیا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1865 ) ۔

قولہ : ( ھذہ یوم صالح ) یہ اچھا دن ہے  یہ مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں جس کا معنی ہے کہ : یہ عظيم دن ہے جس میں اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام اوران کی قوم کونجات دی اورفرعون اوراس کی قوم کوغرق کردیا ۔

قولہ : ( لھذا موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا ) مسلم رحمہ اللہ تعالی نے ا پنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے : ( اللہ تعالی کا شکرادا کرنے کےلیے روزہ رکھا تھا لھذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں ) ۔

اوربخاری شریف کی روایت میں ہے : ( اورہم اس کی تعظیم کے لیے روزہ رکھتےہیں ) ۔

اورامام احمد رحمہ اللہ تعالی نے مندرجہ ذيل الفاظ کی زيادتی کےساتھ روایت کی ہے :

( یہ وہ دن ہے جس دن نوح علیہ اسلام کی کشتی جودی ( پہاڑکانام ہے ) پررکی تونوح علیہ السلام نے شکرانے کا روزہ رکھا ) ۔

قولہ : ( امربصیامہ ) اس کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ، اوربخاری شریف کی روایت میں یہ بھی ہے کہ : ( رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کوفرمایا : تم موسی علیہ السلام کے زيادہ حقدار ہو لھذا تم روزہ رکھو ) ۔

یوم عاشوراء کا روزہ تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل ایام جاھلیت میں بھی معروف تھا ، اورروزہ رکھا جاتا تھا لھذا عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ :

اہل جاھلیت اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔

امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :

ہوسکتا ہےکہ وہ اس دن کا روزہ رکھنے میں اپنے سے پہلی کی شریعت کوسند مانتے ہوں مثلا ابراھیم علیہ السلام کی شریعت ، اوریہ بھی ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ھجرت کرنے سے قبل مکہ میں ہی اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اورجب مدینہ ھجرت کی تووہاں یھودیوں کواس دن کا جشن مناتے ہوئے دیکھا تونبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سبب دریافت کیا توانہيں وہی جواب دیاگيا جیسا کہ پہلے حدیث میں ذکر ہوچکا ہے ، لھذا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عید اورجشن منانے کی مخالفت کرنے کا حکم دیا جیسا کہ مندرجہ ذيل حدیث سے واضح ہوتا ہے :

ابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ یھودی یوم عاشوراء کوجشن اورعید منایا کرتے تھے ( اورمسلم کی روایت میں ہے کہ یھودی یوم عاشوراء کوعیدکا تہوار مناتے اوراس کی تعظیم کیا کرتے تھے ، اورمسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ : اہل خیبر ( یھودی ) اس دن عید کا تہوار مناتے اوران کی عورتیں زیورات اورخوبصورت لباس زیب تن کیا کرتی تھیں ) تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( توتم روزہ رکھا کرو ) اسے بخاری نے روایت کیا ہے ۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یوم عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کے حکم کا سبب یھودیوں سے مخالفت کی محبت ہے تا کہ جس دن وہ روزہ نہيں رکھتے اس میں روزہ رکھا جائے کیونکہ عید کے دن روزہ نہيں رکھا جاتا ۔ انتھی

صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کلام کی تلخیص ختم ہوئي ۔

  روزوں کی تشریع اورفرضیت میں عاشوراء کا روزہ تدریجی حیثیت کا حامل ہے ، لھذا روزوں کوتین حالتوں میں بدلاگیا ، لھذا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تومہینہ بھرمیں تین روزے اورعاشوراء کا روزہ مقرر کیا ، پھراللہ تعالی نے روزوں کی فرضيت اس فرمان میں بیان کی :

{ تم پرروزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں } دیکھیں : احکام القرآن للجصاص جلدنمبر ( 1 ) ۔

لھذا روزوں کی فرضیت عاشوراء کے روزے سے رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت میں منتقل ہوئي ، اوراصول فقہ میں ہلکے اورخفیف کومنسوخ کرکے بھاری اوربڑي چيزفرض کرنے کی دلیل بھی یہی ہے ۔

اوریوم عاشوراء کے روزے کاوجوب منسوخ ہونے سے قبل یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا واجب تھا جس کا ثبوت روزہ رکھنے کا امر ہے پھر اس کی تاکید کی گئي اورپھراس کی اوربھی زيادہ تاکید اس حکم سے ہوئي کہ مائيں اپنے بچوں کواس میں دودھ نہ پلائیں ، اورمسلم شریف میں ابن عباس رضي اللہ عنہما کا قول ثابت ہے :

جب رمضان المبارک کے روزے فرض کیے گئے توعاشوراء کا روزہ ترک کردیا گيا ۔ دیکھیں : فتح الباری ( 4 / 247 ) یعنی اس کا وجوب ترک کردیا گيا اوراس کے روزے کا استحباب باقی ہے ۔

یوم عاشوراء کے روزہ کے فضیلت :

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواس یوم عاشوراء کے دن اوراس مہینہ یعنی رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ کسی اوردن کاروزہ رکھ کرفضیلت حاصل کرنے کی کوشش کرتے نہیں دیکھا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1867 ) ۔

اورحدیث میں استعمال لفظ ( یتحری ) کامعنی یہ ہے کہ : ثواب حاصل کرنے کی رغبت رکھتے ہوئے اس کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔

اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے میں مجھےاللہ تعالی سے امید ہے کہ وہ پچھلے ایک برس کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1976 ) ۔

لھذا ہم پریہ اس اللہ رب العزت کا فضل وکرم اورسخاوت ہے کہ صرف ایک دن کے روزے کے بدلے میں ہمارے ایک برس کے گناہ معاف فرمادیتا ہے اوریہ کیوں نہ ہو وہ اللہ رب العزت توبڑے فضل وکرم والا ہے ۔

یوم عاشوراء کونسا دن ہے :

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں عاشوراء اورتاسوعاء یہ دونوں ہی اسم ممدود ہیں ، اورکتب لغت میں یہی مشہور ہے ، ہمارے اصحاب کہتے ہیں ، عاشوراء محرم کی دس تاریخ ہے اورتاسوعاء محرم کی نوتاریخ کوکہا جاتا ہے ، ہمارا مذھب یہی ہے ، اورجمہورعلماء کرام کا بھی یہی کہنا ہے ، اوراحادیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے اورلفظ کےاطلاق کا تقاضہ بھی یہی ہے اوراہل لغت کےہاں بھی یہی معروف ہے ۔ دیکھیں : المجموع

اورعاشوراء ایک اسلامی نام ہے جس کی پہچان دور جاھلیت میں نہيں تھی ۔ دیکھیں : کشاف القناع جلددوم صوم المحرم ۔

اورابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

محرم کی دس تاریخ عاشوراء ہے ، سعید بن مسیب ، حسن رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے کیونکہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ :

( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء دس محرم کا روزہ رکھنے کا حکم دیا  ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے روایت کیا اوراسے حسن صحیح کہا ہے ۔

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ سے یہ بھی مروری ہے کہ انہوں نے نوتاریخ کہا ۔

اورروایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نومحرم کا روزہ رکھتے تھے ۔ امام مسلم نےاسی معنی کی روایت کی ہے ۔

اورعطاء رحمہ اللہ تعالی سے مروی ہے  : ( نواوردس تاریخ کا روزہ رکھا کرو اوریھودیوں سے مشابھت اختیارنہ کرو) ۔

 لھذا جب یہ ثابت ہے توپھر نواوردس محرم کا روزہ رکھنا مستحب ہوا ، اوراسی لیے امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے یہی بیان کیا ہے اوراسحاق رحمہ اللہ تعالی کا قول بھی یہی ہے ۔

عاشوراء کے ساتھ نومحرم کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے :

عبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ خود رکھا اوراس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا توصحابہ نے عرض کی :

اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کی یھودی اورعیسائي تعظیم کرتے ہیں ، تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

لھذا جب اگلابرس آیا توہم نے نومحرم کا روزہ رکھا ، ابن عباس رضي اللہ تعالی کہتے ہیں اگلابرس آنے سے قبل ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1916 ) ۔

امام شافعی رحمہ اللہ اوران کے اصحاب اورامام احمد ، اسحاق ، اوردوسروں کا کہنا ہے کہ : نواوردس محرم دونوں کا ہی روزہ رکھنے مستحب ہے ، کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس تاریخ کا روزہ رکھا اورنوتاريخ کے روزہ رکھنے کی نیت فرمائي ۔

تواس بنا پرعاشوراء کےروزہ کے مراتب ہیں اس کا کم از کم مرتبہ یہ ہےکہ صرف عاشوراء کا ہی روزہ رکھا جائے ، اوراس سے بڑا اوراونچا مرتبہ یہ ہےکہ دس کےساتھ نوتاريخ کا بھی روزہ رکھا جائے ، اورمحرم میں جتنے بھی زيادہ روزے رکھے جائيں گے اتنا ہی بہتر اورافضل ہوگا ۔

نومحرم کوروزہ رکھنے کے استحباب کی حکمت :

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

ہمارے اصحاب وغیرہ علماء کرام نے نومحرم کا روزہ رکھنے کی حکمت ذکر کرتے ہوئے کئي ایک وجوھات ذکر کی ہيں ، ان میں سے ایک یہ ہے :

اس سے یھودیوں اورعیسا‏ئيوں کی مخالفت مراد ہے کہ وہ صرف دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں ، یہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے ۔

دوسری : اس سے یوم عاشوراء کے ساتھ روزہ ملانا مراد ہے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف جمعہ کے دن کا اکیلا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ، اسے امام خطابی اوردوسروں نے ذکر کیا ہے ۔

تیسری : صرف دس تاریخ کا روزہ رکھنے میں احتیاط ہے کہ کہیں چاندمیں کمی نہ ہو ، اوراس طرح روزہ صحیح نہ ہو اورغلط ہوجائے تواس طرح نوتاریخ چاند کے اعتبار سے دس ہو۔ انتھی

ان وجوھات میں سب سے قوی یہ ہے کہ اس میں اہل کتاب کی مخالفت ہے ، شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ساری احادیث میں اہل کتاب کی مشابھت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ، مثلا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے بارہ میں ‎فرمایا :

( اگرمیں آئندہ برس زندہ رہا تومیں ضرورنوتاریخ کا روزہ رکھوں گا ) دیکھیں : الفتاوی الکبری جلدنمبر ( 6 ) سدالذرائع المفضیۃ الی المحارم ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی اس حدیث ( اگرمیں آئندہ برس زندہ رہا تونوتاریخ کاروزہ رکھوں گا ) پرتعلیق چڑھاتے ہوئے کہتے ہیں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ کا نوتاریخ کے روزہ رکھنے کا ارادہ کا معنی یہ نہیں کہ صرف نوتاریخ کے روزے پرہی اقتصار کیا جائے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ یاتواحتیاطا دس تاريخ کے ساتھ نوکابھی روزہ رکھا جائے یاپھر یھودیوں اور عیسائیوں کی مخالفت کی بناپر ، اورراجح بھی یہی ہے اور مسلم شریف کی بعض روایات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔ دیکھیں : فتح الباری ( 4 / 245 ) ۔

صرف یوم عاشوراء ( دس محرم ) کا روزہ رکھنے کا حکم :

شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا ایک برس کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے اورصرف عاشوراء ( دس محرم ) کاروزہ رکھنا مکروہ نہیں ۔ ۔۔ دیکھیں : الفتاوی الکبری جلدنمبر ( 5 ) ۔

اورابن حجر ھیتمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : صرف عاشوراء ( دس محرم ) کاروزہ رکھنے میں کوئي حرج نہیں ۔ دیکھیں تحفۃ المحتاج باب صوم التطوع جلدنمبر ( 3 ) ۔

اگرعاشوراء جمعہ کا یاہفتہ کےدن بھی آئے توروزہ رکھا جائےگا :

امام طحاوی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا اوراس پرابھارا بھی ہے ، اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اگرہفتہ کے دن یوم عاشوراء ہوتوروزہ نہ رکھاجائے ، لھذا اس میں یہ دلیل ہے کہ کسی بھی دن یوم عاشوراء آجائے توروزہ رکھا جائے ۔

اورہمارے ہاں یہ جائز ہے ، واللہ اعلم ، اگریہ ثابت بھی ہو ( یعنی ہفتہ کے دن روزہ رکھنا منع ہو ) تواس کے روزہ سے اس لیے روکا گیا ہے کہ اس سے اس کی تعظيم نہ کی جائے اورکھانے پینے اورجماع سے رکا جائے جیسا کہ یھودی کیا کرتے تھے ، اورجوکوئي اس دن کا روزہ رکھتا ہے اس دن کی تعظيم کے لیے نہيں اورنہ ہی اس لیے کہ جوکچھ یھودی ترک کرنے کی کوشش کرتے تھے اس کی وجہ سے توپھر یہ مکروہ نہيں ۔۔ دیکھیں : مشکل الآثار باب صوم یوم السبت جلدنمبر ( 2 ) ۔

فرضی روزہ کے علاوہ صرف جمعہ یا صرف ہفتہ کا روزہ رکھنے کی ممانعت وارد ہے ، لیکن جب اس کے ساتھ کسی دوسرے دن کا روزہ ملالیا جائے تویہ ممانعت ختم ہوجاتی ہے ، یاپھر مشروع عادت کے موافق ہوجائے مثلا ایک دن روزہ رکھنا اورایک دن نہ رکھنا ، یا پھر نذر اورقضاء کا روزہ رکھنا یا شریعت نے اس دن کا روزہ رکھنے کا مطالبہ کا ہو جیسا کہ یوم عرفہ اوریوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کا کہا گيا ہے ۔

دیکھیں:  تحفۃ المحتاج باب صوم التطوع جلد نمبر ( 3 ) ، اورکشاف القناع باب صوم التطوع جلددوم ۔

اورصاحب المنھاج کہتےہیں :  ( اورصرف جمعہ کاروزہ رکھنا ممنوع ہے ) لیکن اس کے ساتھ دوسرے دن کوملانے سے یہ کراہت زائل ہوجاتی ہے ، جیسا کہ یہ حدیث میں بھی ثابت ہے ، اورجب عادت یا نذر یا قضاء کے موافق یہ دن آجائے توپھر اس کا روزہ رکھا جاسکتا ہے اس کا بھی ثبوت حدیث میں ملتا ہے ۔

تحفۃ المحتاج میں شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں : قولہ ( جب عادت کے موافق آجائے ) یعنی وہ ایک دن روزہ رکھتا اورایک دن افطار کرتا تھا توروزے والا دن جمعہ کےموافق آجائے ، قولہ  ( یا نذر کے موافق آجائے الخ ) اوراسی طرح جب شارع کے کہنے پرروزہ رکھاجائے اوروہ دن اس کے موافق آجائے مثلا عاشوراء یا یوم عرفہ کا روزہ رکھنا ۔ دیکھیں : تحفۃ المحتاج باب صوم التطوع جلدسوم ۔

بھوٹی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

( اور ) جان بوجھ کر ( صرف ہفتہ کے دن ) کا روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ عبداللہ بن بشراپنی بہن سے بیان کرتے ہیں :

( ہفتہ کے دن کا روزہ نہ رکھو لیکن جوتم پرفرض کیا گيا ہے ) اسے امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے اورامام حاکم کہتے ہیں یہ بخاری کی شرط پر ہے ۔

اوراس لیے کہ یھودی اس دن کی تعظیم کرتے ہيں توصرف ہفتہ کےدن کا روزہ رکھنے میں ان کی مشابھت ہے ۔۔۔ ( لیکن اگر یہ موافق ہو ) یعنی جمعہ یا ہفتہ کے موافق آجائے  ( عادت کے موافق آجائے ) مثلا یوم عرفہ یا یوم عاشوراء کے موافق آجائے اوراس کی روزہ رکھنے کی عادت ہو تواس میں کوئي کراہت نہیں ، کیونکہ اس میں عادت موثر ہے ۔

دیکھیں: کشاف القناع باب صوم التطوع جلد دوم ۔

جب مہینہ کی ابتداء میں شبہ ہوتوکیا کرنا چاہیے ؟

امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

اگرکسی کومہینہ کی ابتداء میں شبہ ہو وہ تین دن کے روزے رکھے ، اوراسے یہ اس لیے کرنا چاہیے تا کہ وہ نو اوردس محرم کا یقینی روزہ رکھ سکے ، دیکھیں : المنعی لابن قدامہ الصیام ، صیام عاشوراء جلدسوم ۔

اورجسے محرم کے مہینہ کے شروع ہونے کا علم ہی نہ ہوسکے اوروہ دس محرم کے بارہ میں احتیاط کرنا چاہے تووہ ذوالحجہ کوتیس یوم کا شمار کرے -  جیسا کہ قاعدہ بھی یہی ہے -  پھر اسے نو اوردس محرم کا روزہ رکھنا چاہیے ، اورجوکوئي نوتاریخ کی بھی احتیاط کرنا چاہے اسے تین یعنی آٹھ ، نو اوردس محرم کوروزہ رکھنا چاہیے ، ( لھذا اگر ذوالجہ کا مہینہ ناقص یعنی انتیس دن کا بھی ہوا تو یقینا اس نے نو اوردس محرم کا روزہ بھی رکھ لیا  ) اوراس لیے کہ عاشوراء کا روزہ رکھنا مستحب ہے نہ کہ واجب لھذا لوگوں کومحرم کا چاندضروردیکھنے کا نہيں کہا جائے جس طرح کہ انہيں رمضان اورشوال کا چانددیکھنا ضروری ہے ۔

عاشوراء کا روزہ کس چيز کا کفارہ بنتا ہے ؟

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

سب صغیرہ گناہ کا کفارہ بنتا ہے ، اوراس کی تقدیر یہ ہوگي کہ کبیرہ گناہوں کے علاوہ سب صغیرہ گناہوں کا کفارہ بنے گا ۔

پھراس کے بعدرحمہ اللہ کہتے ہیں :

یوم عرفہ کا روزہ دوبرس کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے اوریوم عاشوراء ایک برس کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے ، اورجب اس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوجائے تواس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہيں ۔۔۔

یہ سب مذکور اشیاء کفارہ بننے کے اہل ہیں لھذا اگر صغیرہ گناہ ہوں تویہ ان کا کفارہ بن جاتی ہیں ، لیکن اگر نہ توکبیرہ گناہ ہوں اورنہ ہی صغیرہ ہوں توپھران کی بنا پرنیکیاں لکھی جاتی اور درجات بلند کردیے جاتے ہيں ، ۔۔ اوراگر صغیرہ گناہ نہ ہوں بلکہ کبیرہ ہوں توہم امید رکھتے ہيں کہ کبیرہ گناہوں میں تخفیف کا باعث بنتے ہیں ۔

دیکھیں : المجموع شرح المھذب صوم یوم عرفۃ جلد سادس ۔

اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

وضوء وطہارت ، نماز ، اوررمضان المبارک ، یوم عرفہ اوریوم عاشوراء کے روزے صرف صغیرہ گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں ۔ دیکھیں الفتاوی الکبری جلدسادس ۔

روزوں کے ثواب سے دھوکہ میں نہ رہا جائے :

بعض مغرور قسم کےلوگ عاشوراء یا یوم عرفہ کے روزے کے اجروثواب پراعتماد کرتے ہوئے دھوکہ میں پڑجاتے ہیں ،حتی کہ ان میں سے بعض یہ کہتے ہيں : عاشوراء کا روزہ رکھنے سے سارے سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہں ، اوریوم عرفہ کا روزے رکھنے سے اجروثواب باقی رہتا ہے ۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

یہ مغرور اوردھوکہ میں پڑنے والا شخص یہ نہيں جانتا کہ رمضان المبارک کے روزے ، اورپانچوں نمازیں تویوم عرفہ اورعاشوراء کےروزوں سے بھی بڑھ کرعظمت رکھتےہیں ، اوریہ توصرف ان کے مابین صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہیں جب کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے ، لھذا رمضان رمضان تک ، اور جمعہ جمعہ تک ان کے مابین گناہوں کا کفارہ اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے توپھر یہ سب کچھ قوی ہوکر صغیرہ گناہوں کی تکفیر کا باعث بنتے ہيں ۔

اورکچھ مغرور یہ بھی گمان کرتے ہيں کہ ان کی اطاعت کے کام تومعصیت وگناہ سے زيادہ ہیں ، کیونکہ وہ نافرمانی اورمعصیت میں اپنا محاسبہ ہی نہيں کرتا اورنہ ہی وہ اپنے گناہوں کا خیال کرتا ہے ، لیکن جب کوئي اطاعت اورفرمانبرداری کرتا ہے تواسے شمار کرلیتا اوریاد رکھتا ہے ، جس طرح کہ وہ لوگ جواپنی زبان سے استغفار کرتا ہے یا پھر دن میں سوبار تسبیح کرتا ہے پھر وہ مسلمانوں کی غیبت اورچغلی بھی کرتا اوران کی عزتیں بھی اچھالتا ہے اورسارا دن ایسی کلام کرتا ہے جواللہ تعالی کاپسند ہی نہیں ، تویہ شخص اپنی ان تسبیحات اوراستغفار کے فضائل توظاہر کرتا ہے لیکن وہ غیبیت اورچغلی کرنے والوں اورجھوٹے اورکذاب لوگوں کی سزا وعقاب کی طرف متوجہ ہی نہيں ہوتا کہ اس کی سزا کیا ہے یااس طرح دوسری زبانی آفتوں کی سزائيں کیا ہيں ؟ تواس طرح یہ صرف اورصرف غرور اوردھوکہ کے علاوہ کچھ نہيں ۔

دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ جلدنمبر ( 31 )  غرور ۔

رمضان کی قضاء والے شخص کا عاشوراء کے دن روزہ رکھنا :

فقھاء کرام نے رمضان کی قضاء ادا کرنے سے قبل یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کے حکم میں اختلاف کیا ہے :

احناف کے ہاں رمضان المبارک کی قضاء ادا کرنے سے قبل نفلی روزہ رکھنا جائز ہے اوراس میں کوئي کراہت نہیں ، کیونکہ قضاء فورا واجب نہيں ، لیکن مالکیہ اورشافعیہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنا جائز توہے لیکن اس میں کراہت ہے ، کیونکہ ایسا کرنے سے قضاء میں تاخیر لازم ہوتی ہے ۔

دسوقی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں : جس کے ذمہ واجب روزہ رہتاہو اسے نفلی روزہ رکھنا مکروہ ہے ، مثلا نذر والے یا جس کے ذمہ قضاء ہو یا کفارہ کا روزہ رہتا ہو ، چاہے واجب روزے پرمقدم کیا جانے والی نفلی روزہ مؤکد ہویا غیر مؤکد مثلا عاشوراء اورنوذوالحجہ کا روزہ ہو راجح یہی ہے ۔

اورحنابلہ کے ہاں قضاء رمضان سے قبل نفلی روزہ رکھنا حرام ہے اوراس وقت نفلی روزصحیح نہيں ہوگا اگرچہ ابھی قضاء کا وقت باقی بھی ہو ، بلکہ یہ ضروری ہے کہ وہ فرضي کوشروع کرے تا کہ اس کی قضاء ادا کی جاسکے ۔

دیکھيں : الموسوعۃ الفقھیـــۃ صوم التطوع جلدنمبر ( 28 ) ۔

لھذا مسلمان شخص کوچاہیے کہ وہ رمضان المبارک کے بعد روزوں کی قضاء میں جلدی کرے تا کہ وہ بغیر کسی حرج اورتنگی کے یوم عرفہ اورعاشوراء کا روزہ رکھ سکے ۔

اوراگر اس نے یوم عرفہ اورعاشوراء کاروزہ قضاء کی نیت سے بھی رکھا اوررات کوہی روزہ رکھنے کی نیت کرلی تویہ فرضی روزے کی قضاء سے کفائت کرجائے گا ، اوراللہ سبحانہ وتعالی بڑے فضل وکرم والا ہے ۔

عاشوراء کی بدعات :

شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی سے مندجہ ذیل سوال پوچھاگيا :

یوم عاشوراء میں جولوگ سرمہ ، غسل اورمہندی اورمصافحہ وغیرہ کرتے ہیں ، اوردانے وغیرہ پکاکر خوشی وسرور کا اظہار کرتے ہیں کیا اس کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث وارد ہے یا نہیں ؟

اوراگراس بارہ میں کوئي بھی صحیح حدیث وارد نہیں توکیا یہ سب کچھ کرنا بدعت ہے یا نہيں ؟

اورایک دوسرا گروہ اس دن غم وحزن اورماتم اورپیاس اورنوحہ وغیرہ کا اظہارکرتا ہے اورمرثیہ پڑھتے ہیں اورگریبان چاک کرتے ہیں توکیا اس کی کوئي دلیل اوراصل ملتی ہے یا نہيں ؟

توشیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

الحمدللہ رب العالمین :

سب تعریفات اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہی ہیں : اما بعد :

اس بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئي صحیح حدیث ثابت نہيں ہے اورنہ ہی صحابہ کرام سے ثابت ہے ، اورنہ ہی مسلمان آئمہ کرام میں سے نہ توآئمۃ اربعہ اورنہ کی کسی دوسرے نے اسے مستحب قراردیا ہے ، اورنہ ہی بااعتماد کتب میں اسکے متعلق نہ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اورنہ ہی صحابہ کرام میں سے کسی ایک کی روایت مروی ہے بلکہ تابعین کرام سے بھی کوئي صحیح بلکہ ضعیف حدیث بھی مروی نہيں ، نہ توکتب سنن میں اورنہ بھی کتب صحاح  اورمسانید میں کوئي روایت ملتی ہے ۔

اورقرون فاضلہ ( افضل اوربہترادوار ) میں یہ اشیاء معروف تک نہ تھیں اورنہ ہی کوئي اسے جانتا ہی تھا ، لیکن بعض متاخرین نے اس بارہ میں کچھ احادیث روایت کی ہيں مثلا :

یہ راویت کیا جاتا ہے کہ : جس نے یوم عاشوراء کوسرمہ ڈالا اس برس اس کی آنکھ خراب نہيں ہوگي یعنی اسے آشوب چشم نہیں ہوگی ، اورجو شخص یوم عاشوراء میں غسل کرے گا اس برس اسے کوئي بیماری لاحق نہيں ہوگي ۔ اس طرح کی احادیث روایت کی جاتی ہيں ۔

اورایک موضوع حدیث میں یہ بھی روایت کرتےجونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ جھوٹ باندھی گئي ہے :

جس نے اپنے گھروالوں کے لیے یوم عاشوراء میں وسعت کی اللہ تعالی اس پرسارا سال ہی وسعت کرے گا ۔

تواس طرح کی جتنی بھی احادیث ہيں وہ سب کی سب جھوٹ اورکذب بیانی پرمشتمل ہیں ۔

پھرشیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نے اس امت کے ابتدائی ایام میں ہونے والے فتنوں اورمقتل حسین رضي اللہ تعالی عنہ اوراس کی وجہ سے مختلف گروہوں نے جوکچھ کیا اس کا خلاصہ ذکر کرتے ہوئے کہا ہے :

لھذا ایک گروہ توبالکل جاھل اورظالم ہوگیا : یا تووہ گروہ منافق اورملحد ہے یا پھر گمراہ اورخواہشات کا غلام ہے وہ اپنی موالات اوردوستی ظاہرکررہا ہے ، اوراہل بیت کی موالات اورمحبت میں یوم عاشوراء کوماتم اورغم وپریشانی اورنوحہ کا دن بنالیتا ہے ، اس میں جاھلیت کا ماتم رخسارپیٹنا اورگریبان چاک کرنا اورجاہلیت کی تعزيت کے شعار اورعلامات کا اظہار کرتا ہے ، تواس طرح اہل ضلال اورگمراہ لوگوں کے لیے شیطان نے مزين کرکے یوم عاشوراء کوماتم کا دن بنا کررکھ دیا ہے اوراس میں وہ جوکچھ مرثیے اورنوحہ اورغم وحزن کے قصیدے پڑھتے ہیں اسے بھی شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا ہے ، اوراسی طرح ایسی روایات اورقصے بیان کرتے ہیں جوسراسرکذب بیانی اورجھوٹ پرمبنی ہیں جن کی کوئي حقیقت نہيں ملتی ، اس میں‎ تعصب اورغم کی تجدید اورجنگ وجدال اورمسلمانوں کے مابین حسد وبغض اورفتنہ پھیلانے اورسابقین الاولین پرسب وشتم کے علاوہ سچ والی کوئي بات نہيں ۔

اوران لوگوں کا اسلام کونقصان و ضرر اوراسے شرپہنچانا فصیح الکلام شخص توشمارہی نہيں کرسکتا ، یہ لوگ یا تومتعصب نواصب لوگوں سے جوحسین رضي اللہ تعالی عنہ اوراہل بیت کے بارہ میں تعصب کرتے ہیں سے تعلق ہے ، یا پھر ان کا تعلق ان جاہل قسم کے لوگوں سے ہے جوفساد کامقابلہ بھی فساد اورجھوٹ کا مقابلہ جھوٹ ، اورشرکے مقابلہ میں شر اوربدعات کے مقابلہ میں بدعات کرتے ہیں ، لھذا انہوں نے اس سلسلے میں یوم عاشوراء میں فرحت وسرور اورخوشی منانے کے آثار وضع کیے اورگھڑلیے جیسا کہ اس دن سرمہ اورخضاب وغیرہ لگانا اوراہل وعیال پردل کھول کرخرچ کرنا ، اورعام عادت سے ہٹ کرخاص قسم کے کھانے پکانا ، اوراس طرح کے دوسرے کام جوخاص تہواروں اورعیدوں اورخوشی کے موقع پرکیے جاتے ہیں ، تواس طرح ان لوگوں نے یوم عاشوراء کوایک تہوار اورخوشی کا موقع بنا لیا ہے ۔

لیکن اس کے مقابلہ میں دوسرا گروہ اس دن ماتم غم اورحزن اورپریشانی کا اظہار کرتا ہے ، اوریہ دونوں گروہ ہی غلط ہیں اورسنت سے خارج ہيں ، اگرچہ وہ لوگ ( ماتم کرنے والے ) قصد اورارادہ کے اعتبار سے بہت برے اورجاہل اورزيادہ ظالم ہيں ، نہ تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اورنہ ہی ان کے خلفاء اربعہ رضي اللہ تعالی عنہم سے عاشوراء کے دن یہ کچھ کرنا مسنون ہے ، نہ توغم اورپریشانی اورماتم کی علامات کا اظہار ، اورنہ ہی یہ ثابت ہے کہ اس دن خوشی وسرور اورفرحت کا اظہار کیا جائے ۔۔

اورسارے معاملات : مثلا عمومی عادت سے ہٹ کرکھانے تیارکرنا ، یاتودانے وغیرہ پکانا یا پھر نیا لباس زیب تن کرنا یا خرچہ میں وسعت کرنا اوردل کھول کرخرچ کرنا ، یا سال بھر کی ضروریات اس دن خریدلینا ، یاکوئي خاص عبادت کرنا مثلا اس دن کے ساتھ کوئي خاص نماز ادا کرنا ، یا جانوروغیرہ ذبح کرنا یا پھر قربانی کا گوشت زخیرہ کرنا کہ اس کے ساتھ دانے پکائے جائيں ، یا سرمہ اورخضاب وغیرہ لگانا ، یا غسل اورمصافحہ کرنا ، یا آپس میں ایک دوسرے کی زيارت کرنا ، یا مساجد اورمیدانوں وغیرہ کی زيارت کرنا ۔

یہ سب کچھ برائي اوربدعات میں شامل ہوتا ہے جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسنون اورثابت نہيں ، اورنہ ہی خلفاء راشدین سے اس کا کوئي ثبوت ملتا ہے ، اورنہ ہی مسلمان آئمہ کرام میں سے کسی ایک نے اسے مستحب قرار دیا ہے ، نہ توامام ثوری ، نہ ہی لیث بن سعد اورنہ ہی امام ابوحنیفہ ، اورامام اوزاعی اورنہ ہی امام شافعی اورامام احمد بن حنبل نے نہ ہی امام اسحاق بن راھویہ اوراسی طرح دوسرے کسی امام نے اسے مستحب قرار دیا ہے ۔ دیکھیں : فتاوی الکبری لابن تیمیہ ۔

اورابن حاج رحمہ اللہ تعالی نے عاشوراء کی بدعات ذکر کرتے ہوئے یہ بھی ذکرکیا ہے کہ : زکاۃ کی ادائيگي میں جان بوجھ تاخیر یا تقدیم کرنا کہ عاشوراء کے دن زکاۃ ادا کی جا سکے ، اوراس دن کومرغی ذبح کرنے اورعورتوں کے لیے مہندی کے استعمال کے لیے خاص کرنا بھی بدعات میں شامل ہيں ۔ دیکھیں : المدخل  جلداول یوم عاشوراء ۔

آخر میں ہماری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیراہونے والا بنائے اورہماری موت ایمان پرلائے ، اورہمیں اپنی رضامندی اورمحبوب کام کرنے کی توفیق سے نوازے ۔

ہماری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اپنے ذکر اورشکر بہتر طریقہ سے عبادت پرہماری مدد وتعاون فرمائے اورہمیں متقی وپرہيزگاروں میں سے بنائے ، اورہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اورصحابہ کرام پراپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ۔