جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

ایک لڑکی اسلام قبول کرنا چاہتی ہے لیکن وہ اپنے اہل خانہ سے خوف زدہ ہے۔

سوال

ایک لڑکی غیر سماوی دین پر ہے، وہ اسلام سے مکمل طور پر مطمئن ہو چکی ہے؛ لیکن اسے اپنے والد سے بہت ڈر لگتا ہے؛ کیونکہ اس کا والد اس کے مسلمان بھائی کو خوب زد و کوب کرتا ہے، اور اگر وہ اسلام قبول کر بھی لے تو اپنا اسلام مخفی رکھنے پر مجبور ہو گی اور حجاب بھی نہیں لے سکے گی؛ کیونکہ اگر اس نے ایسا کیا تو اسے اور اس کے اہل خانہ کو لوگوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، نیز اسلام قبول کرنے پر وہ اپنے علاقے کے کسی بھی شخص سے شادی بھی نہیں کر سکے گی کیونکہ آس پاس کے سب لوگ غیر مسلم ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے علاقے سے باہر کسی کے ساتھ بھی شادی کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتے۔
تو اس معاملے میں آپ کی جانب سے کیا نصیحت ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس لڑکی کو جلد از جلد اسلام قبول کرنے کی تلقین کرنی چاہیے؛ کیونکہ اللہ تعالی اسلام کے سوا کسی بھی دین کو قبول نہیں فرمائے گا، کوئی  انسان نہیں جانتا  کہ اس کے ساتھ  اگلے لمحے میں کیا ہونے والا ہے، اور کفر کی حالت میں موت آنا انسان کیلیے دنیا و آخرت میں خسارے کا باعث ہے، بلکہ زندگی کا ایک لمحہ بھی کفر پر انسان رہے تو یہ سنگین قسم کا نقصان ، رحمت سے دوری اور محرومی ہے، ہم اس لڑکی کو دین اسلام مکمل سمجھنے  پر مبارکباد دیتے ہیں، اب انہیں چاہیے کہ جلد از جلد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ  پڑھ لے، درمیان میں آنے والی رکاوٹوں اور بد گمانیوں کی جانب توجہ  نہ کرے۔

کیونکہ یہ دین استطاعت اور طاقت سے بڑھ کر اپنے ماننے والوں کو حکم نہیں دیتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
( لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا )
ترجمہ: اللہ تعالی کسی جان کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر حکم نہیں دیتا۔[البقرة:286 ]

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ )
ترجمہ: اور اللہ تعالی نے تم پر دینی امور میں حرج نہیں رکھا۔ [الحج:78 ]

ایک اور جگہ پر فرمایا:
( يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ )
ترجمہ: اللہ تعالی تمہارے بارے میں آسانی کا ارادہ رکھتا ہے وہ تمہارے بارے میں سختی کا ارادہ نہیں رکھتا۔[البقرة:185]

اس لئے اگر وہ لڑکی اسلام قبول کر لے اور اسے اپنے گھر والوں کی طرف سے اذیت رسانی کا خدشہ ہو تو اپنا دینِ اسلام چھپا کر رکھے یہاں تک کہ اللہ تعالی اس کیلیے راستہ بنا دے، اور ایسی صورت میں اس کیلیے حجاب نہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح وہ تمام امور چھوڑنا بھی جائز ہیں  جنہیں ادا کرنا ممکن نہیں ہے، تاہم نمازیں چھپ کر پڑھے، اور کسی بھی حالت میں نماز مت چھوڑے، اگر خفیہ طور پر  روزے رکھ سکتی ہو تو روزے رکھے، اور اگر اس کا راز افشاں ہونے کا خدشہ ہو تو روزہ توڑ دے، اور سال کے اندر اندر اس روزے کی قضا دے۔

اس کے ساتھ اللہ تعالی پر مکمل اعتماد رکھے کہ اللہ تعالی اس کیلیے جلد ہی راستہ بنا دے گا اور اس کی مشکل آسان فرما دے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور نہ ہی اپنے دوستوں کو تنہا چھوڑتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ )
ترجمہ: کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ہے؟ اور یہ لوگ آپ کو اللہ کے سوا اوروں سے ڈرا تے ہیں۔ [ الزمر:36]

اور جہاں تک معاملہ شادی کا ہے تو کسی غیر مسلم سے شادی مت کرے، اس کیلیے موقع محل کی مناسبت سے کوئی بھی بہانہ بنا سکتی ہے، اور اللہ تعالی سے راستہ بننے کی امید رکھے، عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی اس کے گھر والوں کو ہی ہدایت دے دے، یا کوئی مسلمان اسے مل جائے اور وہ اس کے ساتھ شادی کر کے اپنے علاقے سے کہیں دور چلی جائے، یا اللہ تعالی اس کیلیے جو بھی راستہ بنائے اسے اپنا لے۔

بہر حال کچھ بھی ہو جائے اس لڑکی کیلیے کفر پر باقی رہنا جائز نہیں ہے، اور کسی بھی عذر کی بنا پر اسلام قبول کرنے میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے، چنانچہ وہ لڑکی فوری طور پر اسلام قبول کرے اور جس قدر ممکن ہو سکے پوری کوشش کے ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہے،  دین کو دنیا پر ترجیح دے، اور یہ بات ذہن نشین کر لے کہ وہ کوئی پہلی خاتون نہیں ہے جسے دین کی وجہ سے اور اپنے پروردگار کی رضا حاصل کرنے کیلیے تکالیف برداشت کرنی پڑ رہی ہیں، اس کٹھن راستے کے راہی پہلے بھی بہت گزر چکے ہیں۔

آغازِ اسلام سے ہی بہت سی نیک خواتین راہ حق کی راہی بنتی چلی آ رہی ہیں، بہت سی خواتین نے اپنا مال، جاہ وجلال، خاندان اور بسا اوقات اپنی جان تک اس راہ میں نثار اور قربان کیا ہے۔

اللہ تعالی نے اصحاب الاخدود کا واقعہ بیان فرمایا انہوں نے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی اور اپنی جانوں کو راہِ الہی میں قربان کر دیا۔

اسی طرح فرعون کے جادو گروں کا قصہ بھی ذکر فرمایا، ان جادو گروں کی آنکھوں میں دنیا کی لذتیں اور منصب سب کچھ ہیچ ہو چکے تھے، انہوں نے جنت اور مغفرت  کو دنیا اور اس کے مال و متاع پر ترجیح دی، چنانچہ صبح تو کافر و فاجر تھے لیکن شام ڈھلنے سے پہلے متقی اور نیکو کار بن چکے تھے، انہوں نے فرعون کو للکارتے ہوئے کہا تھا:
( لَنْ نُؤْثِرَكَ عَلَى مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا [72] إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَى [73] إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى [74]  وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَى [75]  جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّى )
ترجمہ: جادوگر کہنے لگے : '' جس ذات نے ہمیں پیدا کیا ہے اور جو کچھ ہمارے پاس واضح دلائل آچکے ہیں ان پر ہم تجھے کبھی ترجیح نہیں دے سکتے۔ لہذا جو کچھ تو کرنا چاہتا ہے کرلے۔ تو تو بس اس دنیا کی زندگی کا ہی خاتمہ کرسکتا ہے [72] بلاشبہ ہم اپنے پروردگار پر ایمان لاچکے ہیں تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کردے اور وہ جادو بھی معاف کر دےجس پر تو نے ہمیں مجبور کردیا تھا۔ اور اللہ ہی بہتر اور سدا باقی رہنے والا ہے '' [73] بات یہ ہے  کہ جو شخص مجرم بن کر اپنے پروردگار کے پاس آئے گا اس کے لئے جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا  اور نہ جئے گا۔ [74] اور جو مومن بن کر آئے اور اس نے اعمال بھی نیک کئے ہوں تو ایسے ہی لوگوں کے لئے بلند درجات ہیں۔ [75] (اور) سدا بہار باغات جن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اس شخص کے لئے جزا ہے جو (گناہوں سے) پاک  رہا۔ [طہ:72- 76]

یا اللہ! اس نوجوان لڑکی کو ہدایت نصیب فرما، اور اس کی پیشانی  پکڑ کر اسے اپنی جانب متوجہ فرما، اس کی خصوصی حفاظت فرما، اس کا خصوصی خیال فرما، اسے اور اس کے بھائی کو ظالموں سے نجات نصیب فرما۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب