منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

كيا لڑكى كا اپنے دوست كے ساتھ مكالمہ شادى شمار ہو گا

151524

تاریخ اشاعت : 04-01-2012

مشاہدات : 4310

سوال

ميں اكيس برس كى ہوں اور يونيورسٹى كى طالب علم ہوں جہاں لڑكے اور لڑكياں اكٹھے تعليم حاصل كرتے ہيں تقريبا دو برس قبل جبكہ ميرا يونيورسٹى ميں پہلا تعليمى سال تھا ايك واقعہ پيش آيا اور باقى واقعات كى طرح گزر گيا ليكن جب ميں نے درج ذيل حديث:
تين اشياء حقيقت ميں بھى حقيقى ہيں اور مذاق ميں بھى حقيقى ہيں، نكاح اور طلاق اور غلام آزاد كرنا "
سنى تو مجھے يہ واقعہ ياد آگيا واقعہ كچھ اسطرح ہے كہ ميں اور ميرى سہيلى اور ہمارے تين دوست لڑكے ميٹرو ٹرين ميں سفر كر رہے تھے،مجھے علم ہے كہ مرد و عورت كا اختلاط حرام ہے اور مرد و عورت كے مابين كلام كرنا بھى ناجائز ہے، ليكن ميرے ساتھ يہ واقعہ پيش ضرور آيا مجھے اتنا ياد ہے كہ ہم نے باتوں باتوں ميں شادى كا ذكر چھيڑ ديا تو ميرى سہيلى ايك دوست لڑكے سے كہنے لگى:
فلاں لڑكى ميرى طرف اشارہ كرتے ہوئے كى بارہ ميں تمہارى كيا رائے ہے كيا تم اس سے شادى كرو گے ؟ تو ميں نے بطور كلام اور مزاق كہا ميں راضى ہوں، ميرى سہيلى نے دوبارہ اس لڑكے سے دريافت كيا كہ تمہارى كيا رائے ہے تو وہ لڑكا خاموشى سے ميرى طرف ديكھنے لگا، اور ميں نے بھى اس سے دريافت كيا تمہارى كيا رائے ہے ؟
مجھے ياد نہيں كہ آيا اس نے كوئى جواب ديا يا نہيں، ہم سے كچھ دور ايك شخص علماء كا لباس پہنے كھڑا تھا جيسا كہ ہمارے ملك ميں دينى لوگ پہنتے ہيں، ميں نے اپنى سہيلى كے قريب ہو كر اس مولانا صاحب كى طرف اشارہ كر كے دھيمى آواز سے كہا يہ نكاح خوان كھڑا ہے، ميرے خيال ميں اس شخص نے ہمارى بات نہيں سنى، يہ سب كچھ مزاق ميں ہو رہا تھا، ميں نے اپنے اس دوست سے دوبارہ دريافت كيا كہ تمہارى رائے كيا ہے ميں تو راضى ہوں ؟
ميرا ارادہ شادى كا نہيں تھا بلكہ سب مزاق تھا، ليكن حقيقت ميں مجھے علم نہيں كہ اس دوست كا جواب كيا تھا صرف اتنا ياد ہے كہ وہ ہمارى سارى باتوں كے درميان خاموشى سے ہمارى طرف ديكھتا رہا، اس نے كوئى جواب نہيں ديا اور پھر ميرا ارادہ تو اپنے خاندان كے علاوہ كہيں اور شادى كرنے كا نہيں تھا، ان وسوسوں اور خوف نے ميرى زندگى تباہ كر دى ہے، اور جب ميں نے پڑھا كہ امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ نے ولى كے بغير شادى جائز قرار دى ہے تو ميں پاگل سى ہو گئى كيونكہ ہمارے ملك مصر ميں حنفى مسلك پر عمل كيا جاتا ہے برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ ميں كيا كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ كے دوست اور آپ كے درميان جو واقعہ پيش آيا اور آپ نے دو رضامندى كےالفاظ بولے اور اس لڑكى كى خاموشى اختيار كيے ركھنا شادى شمار نہيں ہوگا، كيونكہ عورت اپنى شادى خود نہيں كر سكتى.

اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 1839 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ابن ماجہ رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كوئى عورت كسى عورت كى شادى نہ كرے، اور نہ ہى عورت اپنى شادى خود كرے "

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بلوغ المرام ميں رقمطراز ہيں:

اس كے رجال ثقات ہيں، اور احمد شاكر نے عمدۃ التفسير ( 1 / 285 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 1848 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس عورت نے بھى اپنے ولى كى اجازت كے بغير نكاح كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، ا سكا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اور اگر وہ اس عورت سے دخول كر لے تو اس كى شرمگاہ حلال كرنے كى وجہ سے عورت كو مہر ادا كريگا، اور اگر وہ جھگڑا كريں تو جس عورت كا ولى نہ ہو اس كا ولى حكران ہوگا "

مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس ليے فرض كريں كہ عورت كى جانب سے ايجاب اور آدمى كى جانب سے قبول بھى ہو تو بھى عورت كا اپنى شادى خود كرنا باطل ہے، تو پھر اگر حالت يہ ہو كہ آپ كے دوست نے كچھ كہا بھى نہيں تو كيا حكم ہوگا ؟!

اگرچہ احناف ولى كے بغير نكاح كو جائز قرار ديتے ہيں ليكن جو آپ نے بيان كيا ہے وہ بھى اسے شادى قرار نہيں ديتے كيونكہ ايجاب و قبول ہى نہيں ہوا، اور پھر احناف كا ولى كے بغير نكاح كے جواز كا قول بھى ضعيف ہے كيونكہ صحيح احاديث سے اس كى ترديد ہوتى ہے، اور يہ قول مرجوح ہوگا.

دوم:

آپ كو اس وسوسہ سے اعراض كرنا چاہيے اور اس كى طرف ملتفت مت ہوں، بلكہ آپ اللہ سبحانہ و تعالى كا ذكر كثرت سے كريں، اور قرآن مجيد كى تلاوت ميں مشغول رہيں اور اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كرتى رہيں، كيونكہ وسوسہ سے چھٹكارا اور اس كا علاج يہى ہے، اس ليے كہ وسوسہ تو شيطانى چال ہے جس ميں شيطان ابن آدم كو پھانسے كى كوشش كرتا ہے تا كہ وہ اسے پريشان كر كے غم ميں ركھ سكے.

لہذا جب بھى آپ كو محسوس ہو كہ جو كچھ ہوا تھا يہ شادى ہے تو آپ اس سے اعراض كرتے ہوئے اس كى طرف دھيان ہى نہ ديں، بلكہ كسى دوسرے كام ميں مشغول ہو جائيں، اور يقين ركھيں كہ جو كچھ ہوا تھا وہ شادى شمار نہيں ہوگا، بلكہ آپ اور اس شخص كے درميان تو بالكل كسى بھى قسم كا كوئى تعلق بھى نہيں ہے.

جس طرح باقى مرد آپ كے ليے اجنبى اور غير محرم ہيں وہ شخص بھى آپ كے ليے اجنبى ہى ہے، اور يہ شعور اور احساس ايك قسم كا وسوسہ ہے جس سے چھٹكارا حاصل كرنا ضرورى ہے، اس كى طرف التفات مت كريں.

سوم:

اور جو بات آپ كے دوسرے دوست كے ساتھ ہوئى اور اس نے كہا كہ: كيا تم مجھ سے شادى كروگى ؟ تو آپ نے جواب نفى ميں ديا.

يہ بھى كچھ شمار نہيں كيا جائيگا، بلكہ يہ تو شرم و حياء كى قلت و كمى كى دليل ہے، اور مروت جيسى چيز نہ ہونے كى دليل شمار ہوتى ہے، جو كہ حرام كردہ اختلاط كا نتيجہ ہے، يہ بتائيں كہ كون يقين كريگا كہ يہ طالب علم يونيورسٹى ميں علم حاصل كرنے آئے ہوئے ہيں ؟! اللہ تعالى سلامتى و عافيت ميں ركھے.

ہمارى آپ كو يہى نصيحت ہے كہ آپ مردوں كے ساتھ ميل جول اور اختلاط سے اجتناب كريں، اور اس كے برے نتائج سے بچ كر رہيں، يہ علم ميں ركھيں كہ اجنبى سے كلام و تمنا اور نظر و سماعت كى بنا پر بہت سارے گناہوں پرمشتمل ہے.

ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كى حفاظت فرمائے اور آپ كى پريشانى كو ختم كر كے آپ كو نيك و صالح خاوند نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب