اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

غور و فکر کا اسلام میں مقام

05-11-2019

سوال 306654

میں نے ملحدین کی کچھ ویب سائٹس پر پڑھا ہے کہ اسلام غور و فکر کرنے سے روکتا ہے، آپ سے میں امید کرتا ہوں کہ ان کے اس شبہے کا رد فرما دیں، شکریہ

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اپنے عقیدے اور ایمان کی حفاظت مسلمان پر واجب ہے، اپنے افکار اور فطری مذہب اسلام کا بھر پور خیال رکھے، شبہات اور فتنوں سے اپنے دین اور دل کو بچانے کی پوری کوشش کرے؛ کیونکہ انسانی دل فتنوں کا مقابلہ کرنے میں کمزور واقع ہوتے ہیں اور شبہات دلوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں، اہل بدعت اور گمراہ قسم کے لوگ بناوٹی خوبصورتی کے ساتھ ان شبہات کو پیش کرتے ہیں، حالانکہ یہ شبہات در حقیقت انتہائی کمزور ہوتے ہیں۔

بدعتی اور گمراہ لوگوں کی کتب، یا مشرکین اور خرافات پر مشتمل عقائد رکھنے والوں ، یا دیگر مذاہب کی کتابوں ، یا منافقین اور ملحد لوگوں کی تصنیفات ، یا اس قسم کے نظریات رکھنے والی ویب سائٹس کا مطالعہ جو ان منحرف افکار کی ترویج بھی کرتی ہیں صرف انہی لوگوں کے لئے جائز ہے جن کے پاس شرعی علم ہے اور وہ ان نظریات کو پڑھ کر ان کا رد کرنا چاہتا ہے اور بتلانا چاہتا ہے کہ ان کے شبہات باطل ہیں، ساتھ میں یہ بھی شرط ہے کہ وہ اس کام کا اہل بھی ہو اور صلاحیت بھی رکھتا ہو۔

جبکہ ایسا شخص جس کے پاس شرعی علم نہیں ہے تو وہ ان کی باتوں کو پڑھ کر حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے، اس کے دل میں یقین بھی کمزور ہو جاتا ہے، شبہات پڑھ کر اس کے قدم ڈگمگانے لگ جاتے ہیں۔

عوام الناس میں سے بہت سے لوگ ان شبہات کا شکار ہو چکے ہیں، بلکہ بہت سے ایسے تشنگان علم بھی ان کے چنگل میں پھنس گئے جو ابھی اس کام کے اہل نہیں تھے، اور آخر کار کچھ لوگ تو گمراہ بھی ہو گئے۔ اللہ تعالی ہمیں محفوظ فرمائے۔

عام طور پر ایسی کتابیں پڑھنے والے کو نقصان پہنچتا ہے وہ اس طرح کہ وہ پیش کیے جانے والے شبہات کے مقابلے میں اپنے ایمان کو بہت قوی سمجھتا ہے، لیکن نتائج کچھ اور ہی نکلتے ہیں اور اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ اس کے دل میں ان شبہات نے گھر کر لیا ہے!!

اسی لیے سلف صالحین متفقہ طور پر ایسی کتابوں کو دیکھنے اور ان کے مطالعہ سے روکتے تھے۔

اس بارے میں مزید تفصیلات آپ سوال نمبر: (92781) کا ضرور مطالعہ کریں۔

دوم:

اسلامی تعلیمات صرف اسلامی مصادر سے حاصل کرنا انتہائی ضروری ہیں، ان میں سے سب سے بڑے اور بنیادی ماخذ و مصدر قرآن و سنت ہیں۔

جبکہ اسلام نے عقل اور غور و فکر کو بہت بلند مقام سے نوازا ہے، یہ مقام و مرتبہ متعدد آیات میں بالکل واضح نظر آتا ہے، چنانچہ قرآن کریم میں دسیوں بار ایسے کلمات تکرار کے ساتھ آئے ہیں جو عقل و فکر کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں، مثلاً:   لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ترجمہ: تا کہ تم عقل کرو۔  لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ  ترجمہ: غور و فکر کرنے والی قوم کے لئے ۔  لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ   ترجمہ: سمجھنے والی قوم کے لئے ۔

بلکہ اللہ تعالی نے غور و فکر کی دعوت تو قرآن کریم میں بھی دی ہے اور فرمایا:

كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ

ترجمہ: ہم نے آپ کی طرف جو کتاب نازل کی ہے وہ بابرکت ہے، تا کہ وہ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور اہل دانش نصیحت حاصل کریں۔ [ص: 29]

اسی طرح اللہ تعالی نے بھی اپنی مخلوقات میں غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:

 أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ مَا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُسَمًّى وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ

ترجمہ: کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا ؟ اللہ نے آسمانوں ، زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کو کسی حقیقی مصلحت اور ایک مقررہ وقت تک کے لئے پیدا کیا ہے۔ مگر لوگوں میں سے اکثر اپنے پروردگار کی ملاقات سے منکر ہیں۔ [الروم: 8]

بلکہ اللہ تعالی نے تو جہنمی لوگوں کی مذمت بھی اسی لیے فرمائی ہے کہ انہوں نے اپنی عقل سے فائدہ نہیں اٹھایا، اور ان کی اس بات کو قرآن مجید میں ذکر فرمایا:

وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ

 ترجمہ: اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے، یا عقل سے کام لیتے ہوتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں نہ ہوتے۔ [الملک: 10]

ایک اور مقام پر فرمایا:

 أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

ترجمہ: کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ایسے ہو جاتے جن سے کچھ سمجھتے ہوتے اور کان ایسے جن سے وہ سن سکتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، اندھے تو وہ دل ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ [الحج: 46]

بلکہ غور و فکر تو عبادت ہے، اللہ تعالی نے اس بات پر متنبہ کرتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ (190) الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

 ترجمہ: یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، اور شب و روز کے باری باری آنے جانے میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ [190] جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچ بچار کرتے (اور پکار اٹھتے) ہیں۔ "اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا تیری ذات اس سے پاک ہے۔ تو اس لیے ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے" [آل عمران: 190- 191]

علامہ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آیت  إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ  ترجمہ: یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، اور شب و روز کے باری باری آنے جانے میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ۔ [آل عمران: 190] میں اللہ تعالی نے لوگوں کو اس کائنات میں غور و فکر کی ترغیب دی ہے کہ کائنات کی نشانیوں سے بصیرت حاصل کریں، اس کی تخلیق میں غور و فکر کریں، اس کے لئے لفظ "آیات" کو مبہم رکھا اور یہ نہیں کہا کہ: "اس میں فلاں فائدہ ہے" ؛ کیونکہ ان فوائد اور آیات کی اقسام ہی بہت زیادہ ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کائنات میں ایسی محیر العقول نشانیاں ہیں جو دیکھنے والوں کو دنگ کر دیں، ان میں غور و فکر کرنے والے انہیں تسلیم کیے بغیر رہ نہیں سکتے، یہ نشانیاں متلاشیان حق کے دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں، اللہ تعالی کے تمام اہداف کے متعلق روشن دماغوں کو متنبہ بھی کرتی ہیں، چنانچہ اس کائنات میں موجود اجرام فلکیہ اور اشیا کی تفصیل کسی بھی مخلوق کے لئے شمار کرنا ممکن نہیں ہے، تفصیل تو کیا کسی ایک چیز کی مکمل معلومات حاصل کرنا بھی ممکن نہیں !

مختصر یہ کہ: اس کائنات کے حجم، وسعت، اور اس کا منظم نظام حرکت، اس کائنات کے خالق کی عظمت ، عظیم سلطنت، اختیارات اور وسیع قدرت کی واضح دلیلیں ہیں۔

اس کائنات کا محکم نظام، کمال بناوٹ، بہترین تخلیق اور اعلی کارکردگی سب کچھ کامل حکمت الہی کی دلیلیں ہیں اور اس بات کے دلائل ہیں کہ اللہ تعالی نے ہر چیز مناسب جگہ پر بنائی ہے اور اس کا علم انتہائی وسیع ہے۔

اس کائنات میں موجود مخلوقات کے فائدے کی اشیا؛ وسیع رحمتِ الہی ، اللہ تعالی کے عام فضل و احسان اور اللہ کا شکر واجب ہونے کی دلیل ہیں۔

مذکورہ تمام چیزیں اس بات کی دلیلیں ہیں کہ خالق اور پیدا کرنے والے کے ساتھ دل کا تعلق مضبوط ہونا چاہیے، رضائے الہی حاصل کرنے کے لئے پوری کوشش کی جائے، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں جو زمین اور آسمان میں ایک ذرے کے بھی مالک نہیں۔

یہاں آیات میں غور و فکر کرنے کے لئے اللہ تعالی نے خصوصی طور پر اہل دانش اور عقل والوں کو دعوت دی ہے؛ کیونکہ ایسے ہی لوگوں کو کائنات میں غور و فکر کا فائدہ ہو گا، یہی لوگ اس کائنات کو صرف بصارت سے ہی نہیں بلکہ بصیرت سے دیکھتے ہیں۔

پھر ان اہل دانش کی خوبی یہ بیان کی کہ وہ ہر حالت میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں، چاہے قیام میں ہوں یا بیٹھے ہوئے ہوں یا پہلو کے بل لیٹے ہوئے ہوں۔ مذکورہ تینوں حالتوں میں ہمہ قسم کا ذکر آ جاتا ہے چاہے اس کا تعلق زبان سے ہو یا دل سے، اس میں کھڑے ہو کر نماز ادا کرنا بھی شامل ہے، اگر آپ میں استطاعت نہیں ہے تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں ہے تو پہلو کے بل نماز ادا کرنا بھی اس میں شامل ہے، یہ اہل عقل و دانش آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر اس لیے کرتے ہیں تا کہ ان کی تخلیق کا اصل ہدف حاصل ہو سکے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غور و فکر اللہ تعالی کی معرفت رکھنے والے اولیا کی خوبی ہے، یہ اولیا جب ان چیزوں میں غور و فکر کرتے ہیں تو یقینی طور پر جان لیتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ان چیزوں کو فضول پیدا نہیں کیا، تو اس یقینی علم کے حاصل ہونے پر کہتے ہیں: "اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا تیری ذات ہر اس چیز سے پاک ہے جو تیری شان کے لائق نہیں، بلکہ تو نے ہر چیز کو کسی مقصد کے ساتھ اور خاص ہدف کے لئے پیدا کیا ہے، اور اس کے تمام اجزائے ترکیبی بھی عین درست ہیں"

تو اس لیے ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے ، وہ اس طرح کہ ہمیں گناہوں سے محفوظ فرما، ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق سے نواز تا کہ ہم جہنم کی آگ سے بچ سکیں۔"
تفسیر السعدی: (161)

ایک حدیث میں ہے کہ عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں اور عبید بن عمیر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو انہوں نے عبید بن عمیر کو کہا: "ہم سے ملاقات کا تمہیں وقت مل ہی گیا!" تو عبید نے کہا: ماں جی میں نے سوچا کہ ایسے ہی کرتا ہوں جیسے بڑوں سے سنتے آئے ہیں: وقفہ رکھ کر ملنے جاؤ تو محبت بڑھتی ہے۔ یہ سن کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اپنی ایسی فضول باتیں ہم سے نہ کیا کرو۔
تو عبید بن عمیر نے عرض کیا: آپ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایسی بات بتلائیں جو آپ کے مشاہدے میں سب سے حیرت انگیز ہو۔
اس پر سیدہ عائشہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گئیں اور پھر کہنے لگیں: ایک رات آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے کہا: (عائشہ! مجھے چھوڑو میں رات کے اس حصے میں اپنے رب کی عبادت کر لوں) اس پر میں نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے آپ کا ساتھ بہت محبوب ہے، اور میرے لیے ہر وہ بات بھی محبوب ہے جس سے آپ خوش ہوں۔
سیدہ عائشہ کہتی ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم اٹھے اور وضو کیا پھر نماز پڑھنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم رونے لگے یہاں تک کہ آپ کی گود بھیگ گئی۔
سیدہ عائشہ کہتی ہیں کہ: آپ پھر بھی زار و قطار روتے رہے کہ آپ کی ڈاڑھی بھی بھیگ گئی۔
سیدہ عائشہ کہتی ہیں کہ: آپ اتنا زار و قطار روتے رہے کہ زمین بھی بھیگ گئی۔
اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز کا وقت بتلانے کے لئے آ گئے، انہوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو روتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا: "اللہ کے رسول! آپ کیوں روتے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی سابقہ اور لاحقہ تمام لغزشیں تک معاف کر دی ہیں"
اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟! آج رات مجھ پر ایک آیت نازل ہوئی ہے ، جو اس کو پڑھے اور اس پر غور و فکر نہ کرے تو اس کے لئے تباہی ہے، اور وہ یہ آیت ہے:  إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ  ترجمہ: یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، اور شب و روز کے باری باری آنے جانے میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ۔ [آل عمران: 190])"
اس حدیث کو ابن حبان: (2/ 286) نے روایت کیا ہے، مزید کے لئے دیکھیں: "السلسةالصحيحة "(1/ 147)

پروفیسر عباس محمود عقاد جو کہ بہت بڑے ادیب، مفکر اور دانشور ہیں ان کی اس مسئلے کے متعلق ایک مستقل کتاب " التفكير فريضة إسلامية" کے نام سے موجود ہے، اس حوالے سے آپ اس سے استفادہ بھی کر سکتے ہیں۔

واللہ اعلم

عقیدہ آداب
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔