اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

والد نے زبردستى شادى كر دى اور خاوند اس سے انتقام لينے پر مصر ہے طلاق نہيں ديتا

26-03-2013

سوال 105301

ميں اپنا يہ قصہ لكھ رہى ہوں تو ميرے آنسو رخساروں پر بہہ رہے ہيں، ميرا يہ قصہ تقريبا چار برس سے شروع ہوا ہے جب ميں يونيورسٹى ميں فرسٹ ائير كى طالبہ تھى كہ ميرى پھوپھو كا بيٹا ميرے والد كے پاس ميرا رشتہ لينے آيا تو ميں نے اس وقت اس شادى سے انكار اس ليے كر ديا كہ سب سے پہلى رغبت اور ميرے ليے اہم يہ تھا كہ تعليم مكمل كر لوں.
اور دوسرا سبب يہ تھا كہ ميرے والد صاحب اور ميرى پھوپھو كا آپس ميں تعلق اچھا نہيں تھا، اور ان دونوں ميں كچھ مشكلات تھيں، جو ميرے اور ميرے بھائيوں كے اپنى پھوپھو كى اولاد كے ساتھ بچپن سے ہى تعلقات پر اثرانداز ہوئيں.
ميرے والد صاحب نے اس رشتہ كو قبول كرنے كے ليے كئى ايك كوششيں كيں ليكن ميں نے بڑى شدت كے ساتھ انكار كر ديا، اور اس ميں ميرى والدہ اور ميرے بھائيوں اور بعض دوسرے رشتہ داروں نے بھى ميرى تائيد كى.
ليكن بعد ميں والد صاحب نے مجھ پر دباؤ ڈالا اور مجھے زبردستى قبول كرانے كى كوشش كى، ليكن ميں انكار كرتى رہى، اس طرح ميرے والد صاحب مجھ پر ناراض ہوگئے اور ميرى موافقت كو انہوں نے تعليم مكمل كرنے سے مربوط كر ديا، اور كہنے لگے:
اگر تم نے اس شادى سے انكار كيا تو تم تعليم مكمل نہيں كر سكتى، اور انہوں نے كچھ ايام مجھ سے كلام بھى نہ كى اور وہ مجھے ديكھنا بھى نہيں چاہتے تھے، اس طرح ميں يہ رشتہ قبول كرنے پر مجبور ہوگئى كيونكہ ميں والد صاحب كو كھونا نہيں چاہتى تھى، اور نہ ہى يونيورسٹى كى تعليم ادھورى چھوڑنا چاہتى تھى.
اس طرح عقد نكاح ہوگيا اور ميرى والدہ نے شرط ركھى كہ شادى يعنى رخصتى دو برس سے قبل نہيں ہوگى، جب سے عقد نكاح ہوا ہے ميں نے اپنے خاوند كو نہيں ديكھا، اور نہ ہى اس نے كبھى مجھے ٹيلى فون ہى كيا ہے، اور نہ ہى كبھى ميرے متعلق پوچھا ہے، جيسا كہ عقد نكاح كے بعد عام خاوند اور بيوى كى عادت ہوتى ہے كہ وہ رخصتى سے قبل بہت اچھا اور سعادت والا عرصہ گزارتے ہيں جس ميں وہ اپنى زندگى گزارنے كى پلاننگ كرتے ہيں.
اسى طرح ايك سال اور پھر دو سال اور پھر تين اور چار برس بيت گئے اور ہمارى يہى حالت رہى، ميں نے عقد نكاح كے دن سے ليكر يہ سطور لكھنے تك اپنے خاوند كو نہيں ديكھا، اور اسى طرح ميرى رخصتى كے ايام بھى مقرر نہيں ہوئے، ميں معلق ہو كر رہى گئى ہوں، مجھے كوئى علم نہيں اور ميں نہيں جانتى كہ ميرا انجام كيا ہوگا.
ميں شادى شدہ تو ہوں ليكن بغير خاوند كے، ہم ميں سے جب بھى كسى نے رخصتى كے بارہ ميں پھوپھو سے دريافت كيا تو انہوں نے عنقريب كا كہہ كر ٹال ديا، حتى كہ ميں يونيورسٹى سے فارغ ہوگئى، تو اس وقت ميرى پھوپھو كو علم ہوا كہ ميں تو ملازمت كرنے كى رغبت ركھتى ہوں، تو پھوپھو نے مجھے بتايا كہ اس كا بيٹا عورت كى ملازمت كے خلاف ہے، مجھ پر ضرورى ہے كہ ميں ملازمت نہ كروں.
والد والدہ اور پھوپھو كى موجودگى ميں اس موضوع پر بات ہوئى تو پھوپھو نے ميرے والد صاحب كو كہا: ميں تمہيں بتانا چاہتى ہوں كہ ميں نے اپنے بيٹے كو اس شادى پر راضى كرنے كى بہت كوشش كى ليكن وہ نہيں مانتا اور اس شادى سے انكار كرتا ہے.
پھوپھو نے ميرے والد صاحب سے كہا كہ وہ اس كے بيٹے كو اس پر راضى كريں، تو ميرے والد صاحب ناراض ہوگئے اور انكار كر ديا كہ وہ اس كے بيٹے كو نہيں منائيں گے، ليكن پھوپھو كہنے لگى: وہ اسے راضى كر ليں گى، اس كے بعد ميرے خاوند نے مجھے ٹيلى فون كيا اور وہ مجھ بغير سانس ليے ہى بات چيت كرتا، اور ٹيلى فون پر مجھے ذليل كرنے كى كوشش كرتا، مجھے علم نہيں ہوا كہ وہ ٹيلى فون كر كے كيا چاہتا تھا.
اس كے كچھ ايام بعد ميرى پھوپھو نے ٹيلى فون كر كے بتايا كہ وہ گرميوں ميں رخصتى كرنے كے ليے شادى ہال بك كرنے كے ليے كوئى ہال اختيار كر رہى ہے، اس كے بعد ميرے خاوند نے مجھے دوسرى بار ٹيلى فون كيااور مجھے بتايا كہ وہ مجھے پسند نہيں كرتا، اور نہ ہى مجھے چاہتا ہے، ليكن صرف انتقام لينا چاہتا ہے.
مجھے علم نہيں كہ ميرے ساتھ وہ يہ سارى دشمنى كس وجہ اور كس سبب سے كر رہا ہے، پھر ميں نے اس وقت فيصلہ كيا كہ ميں اسے واضح طور پر بتا دوں ـ جس كے متعلق ميرے والد نے مجھے دھمكى دى تھى كہ اگر ميں نے وہ بات كسى كو بتائى تو وہ مجھے قتل كر ديں گے ـ وہ بات يہ تھى كہ:
ميں نے يہ رشتہ مجبورا قبول كيا تھا اس پر راضى نہ تھى جب ميرے خاوند كو يہ علم ہوا تو اسے بہت غصہ آيا اور كہنے لگا: ميں نے اپنى زندگى كے چار برس ضائع كيے ہيں، اور اب ميں تجھے ويسے ہى طلاق دے دوں، ميں اكيلا قربانى كا بكرا نہيں بننا چاہتا، بلكہ تمہيں بھى نقصان دے كر چھوڑوں گا، ميں تم سے شادى كر كے ايك يا دو ماہ بعد طلاق دوں گا تا كہ تم بھى نقصان اٹھاؤ.
اور اگر تم دخول نہيں چاہتى تو ميں دخول نہيں كروگا اس كے دو يا تين دن كے بعد پھوپھو نے فون كيا اور رخصتى كى تاريخ مقرر كر دى، اس وقت ميں نے اپنے خاوند كو فون كيا اور بتايا كہ ميرى آخرى آرزو اور اميد يہى ہے كہ مجھے طلاق دے دو، ميں نے اس سے طلاق كے بارہ ميں بات چيت ليكن وہ نہيں مانا اور كہنے لگا ميں نے انتقام لينا ہے.
اور جب ميں نے اپنے والدين كو اس كے متعلق بتايا تو دونوں نے مجھے كہا:
شادى كے بعد سب كچھ تبديل ہو جائيگا ـ حالانكہ ميرى والدہ ميرى تائيد ميں تھى ليكن لوگوں كى باتوں كى بنا پر وہ بھى والد صاحب كى تائيد كرنے لگيں ـ اور اسى طرح مجھے يہ بھى كہنے لگے كہ: اگر عقد نكاح كے چار برس بعد ميں تمہيں طلاق ديتا ہے تو لوگ بہت باتيں كريں گے؛ اس ليے كہ ميرے گھر والوں كے ليے پہلى اور آخرى چيز تو لوگوں كى باتيں ہيں، انہيں ميرے انجام كا كوئى فكر نہيں كہ ميرا كيا بنےگا.
ميرے بھائيوں اور كچھ رشتہ داروں نے بھى اس شادى اور رخصتى كرنے سے والدين كو روكنے كى كوشش كى ليكن كوئى فائدہ نہيں ہوا، ميں ديكھ رہى ہوں كہ ايام بہت تيزى سے بيت رہے ہيں، ميں كچھ نہيں كر سكتى، كيونكہ مجھے علم ہے كہ يہ شادى ناكام ہو جائيگى، اور قائم نہيں رہ سكتى، اس ليے كہ ہم ايك دوسرے كو ناپسند كرتے ہيں.
يہ علم ميں رہے كہ ميرى رخصتى كى تاريخ رجب كے شروع ميں مقرر كى گئى ہے، برائے مہربانى آپ بتائيں كہ آيا يہ شادى شرعى طور پر صحيح ہے يا نہيں، خاص كر جبكہ مجھے يہ رشتہ قبول كرنے پر زبردستى مجبور كيا گيا ہے، اور مجھے كيا كرنا ضرورى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جب آپ اس شخص كو ناپسند كرتى تھيں تو آپ كے والد نے اس شخص كے ساتھ شادى كرنا قبول كرنے پر مجبور كر كے بہت شديد غلطى كى ہے، اور والد نے پھوپھى كے بيٹے سے شادى كو قبول كرنے كے سلسلہ ميں آپ پر جو دباؤ ڈالا ہے وہ شرعى طور پر قابل قبول نہيں، اور نہ ہى مجبور كرنے پر شرعى شادى كے اثرات مرتب ہو سكتے ہيں.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ايم ( يعنى بيوہ يا مطلقہ ) عورت اپنے ولى سے اپنى زيادہ حقدار ہے، اور كنوارى سے اس كے بارہ ميں اجازت لى جائيگى، اور كنوارى كى اجازت اس كى خاموشى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1421 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے كسى شخص كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ عورت كى اجازت كے بغير اس كى شادى كر دے، اور اگر وہ اسے ناپسند كرتى اور كراہت كرتى ہے تو اسے نكاح پر مجبور نہيں كيا جائيگا، الا يہ كہ چھوٹى عمر كى كنوارى بچى كى شادى اس كا والد كريگا اور اس كو اجازت كا حق نہيں، ليكن بالغ اور ثيبہ ( جس كى شادى ہو چكى تھى اور اب وہ خاوند كے بغير ہے ) عورت كى اجازت كے بغير اس كى شادى كرنى جائز نہيں، نہ تو والد ہى اس كى شادى بغير اجازت كر سكتا ہے اور نہ ہى كوئى دوسرا، اس پر مسلمانوں كا اجماع ہے.

اور اسى طرح بالغ كنوارى لڑكى كے والد اور دادا كے كے علاوہ كسى اور كو حق نہيں كہ وہ اس كى اجازت كے بغير نكاح كر ديں، اس پر بھى مسلمانوں كا اجماع ہے، كيونكہ باب اور دادا كو بھى اس سے اجازت لينى ضرورى ہے.

علماء كرام اس ميں اختلاف كرتے ہيں كہ آيا كنوارى لڑكى سے اجازت لينى واجب ہے يا كہ مستحب ؟

صحيح يہى ہے كہ يہ واجب ہے، اس ليے ولى كو چاہيے كہ وہ جس سے اپنى لڑكى كى شادى كر رہا ہے اس شخص كے متعلق اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرتے ہوئے ديكھے كہ آيا وہ اس لڑكى كا كفو اور برابر كا ہے يا نہيں كيونكہ وہ شادى ان دونوں كى مصلحت كے ليے كر رہا ہے اپنى مصلحت كے ليے نہيں، ولى كو يہ حق حاصل نہيں كہ وہ اپنى كسى غرض اور مقصد كے ليے كسى ناقص خاوند سے لڑكى كى شادى كر دے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 39 - 40 ).

دوم:

اگر باپ اپنى بيٹى كى شادى بيٹى كى رضامندى كے بغير كر دے تو اس بيٹى كے ليے نكاح لازم نہيں ہے، چاہے تو وہ اس نكاح كو رد كر سكتى ہے، اور اگر چاہے تو اس نكاح كو جارى كر دے.

امام بخارى رحمہ اللہ نے باب باندھتے ہوئے كہا ہے:

" جب آدمى اپنى بيٹى كى شادى كرے اور بيٹى اسے ناپسند كرتى ہو تو اس كا نكاح مردود ہے "

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ايك كنوارى لڑكى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور اس نے بيان كيا كہ اس كے والد نے اس كى شادى نہ چاہتے ہوئے بھى كر دى وہ اسے ناپسند كرتى تھى، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے اسے اختيار دے ديا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2096 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1875 ) ابن قيم رحمہ اللہ نے تھذيب السنن ( 3 / 40 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اللہ سبحانہ و تعالى سے كثرت سے دعا كريں وہى اللہ مجبور و لاچار اور بےكس كى دعا كو قبول كرنے والا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

كون ہے جو بےكس و لاچار كى دعاء كو قبول كر كے اس كى سختى كو دور كرتا ہے ؟ اور تمہيں زمين كا خليفہ بناتا ہے كيا اللہ تعالى كے ساتھ كوئى اور بھى معبود ہے ؟ تم بہت ہى كم نصيحت و عبرت حاصل كرتے ہو النمل ( 62 ).

اور اس كے ساتھ ساتھ آپ اپنے خاندان كے عقل و دانش ركھنے والے افراد سے بھى معاونت حاصل كريں، مثلا اپنے چچاؤں سے اور پھوپھى اور ماموں اور خالہ وغيرہ سے، اور ان سب كو چاہيے كہ وہ اس معاملہ ميں ضرور دخل اندازى كريں بلكہ ان كے ليے واجب ہے كہ وہ آپ كے والد كو بھى نصيحت كريں اور آپ كے خاوند كو بھى كہ وہ طلاق دے دے.

ليكن اگر يہ سب فائدہ نہ دے سكے تو پھر ہمارى رائے تو يہى ہے كہ آپ اپنا معاملہ شرعى عدالت ميں شرعى قاضى كے سامنے پيش كريں، اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى مشكل اور پريشانى كو ختم كرے.

سوم:

ہم خاوند كو بھى نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرتے ہوئے اپنے عقد نكاح ميں ہونے والى بيوى پر ظلم و ستم سے رك جائے، اور ہم اسے نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اچھے طريقہ سے احسان كے ساتھ اسے چھوڑ دے.

ہميں تو يہ سمجھ نہيں آ رہى كہ ايك مسلمان شخص كسى ايسى عورت سے شادى پر كيسے آمادہ ہوتا ہے جسے وہ چاہتى ہى نہيں اور وہ اس سے شادى كى رغبت ہى نہيں ركھتى، ہم اس خاوند كو يہ ياد دلانا چاہتے ہيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى ہر گناہ كو مؤخر كر ديتا ليكن ظلم اور قطع رحمى جيسے گناہ كو مؤخر نہيں كرتا، اور اسے يہ علم ہونا چاہيے كہ وہ عنقريب جلد يا دير سے شادى ضرور كريگا، اور پھر اس كى اولاد ميں بيٹے اور بيٹياں بھى ہونگى.

اس ليے اسے ڈرنا چاہيے كہ كہيں اللہ تعالى اس كى سزا اس كى بيٹيوں ميں نہ دے دے، كہ ان سے كوئى ايسا شخص شادى كر لے جو صرف لڑكى سے انتقام لينا چاہتا ہو، يا پھر لڑكى كے خاندان والوں سے انتقام لينا چاہے.

تو اس طرح اس كى بيٹى اس كے ليے آزمائش اور سزا بن كر رہ جائے، اور اسے دنيا و آخرت ميں اللہ تعالى كى سزا اور پكڑ سے ڈرنا چاہيے، كيونكہ دنيا ميں ظلم كرنا روز قيامت كے اندھيروں ميں شامل ہوتا ہے.

ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے اللہ تبارك و تعالى سے روايت كيا ہے كہ اللہ كا فرمان ہے:

" اے ميرے بندو يقينا ميں نے اپنے اوپر ظلم كو حرام كيا ہے، اور اسے تم پر بھى آپس ميں ايك دوسرے پر ظلم كرنا حرام كيا ہے، اس ليے تم آپس ميں ايك دوسرے پر ظلم مت كرو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2577 ).

اور عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ظلم روز قيامت كے اندھيروں اور سختيوں ميں سے ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2315 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2579 ).

بعض سلف رحمہ اللہ كا قول ہے:

" اگر تمہارى قدرت و طاقت لوگوں پر ظلم كرنے كى دعوت دے اور ابھارے تو تم اپنے اوپر اللہ سبحانہ و تعالى كى قدرت و طاقت كو ياد كر ليا كرو "

اور كسى شاعر نے كيا ہى عجيب بات كہى ہے:

جب تم طاقت اور قدرت ركھتے ہو تو ظلم مت كرو كيونكہ ظلم كا انجام ندامت ہے.

تم نيند ميں ہو ليكن مظلوم بيدار ہے اور وہ تمہارے خلاف دعا كر رہا ہے، اور پھر اللہ كو تو نيند نہيں آتى.

اس ليے ہم اس خاوند كو يہى كہيں گے كہ تم اللہ كے سامنے پيش ہونے كو ياد ركھو، اس دن اللہ كے سامنے پيش ہوؤ گے جس دن نہ تو مال فائدہ دےگا اور نہ ہى اولاد، اور وہ ايسا دن ہے جس ميں انسان اپنے بھائى اور ماں باپ وغيرہ سب سے دور بھاگےگا.

وہ ايسا دن ہے جو پچاس ہزار سال كا ہوگا، اس دن بچے بوڑھے ہو جائينگے، اور ہر دودھ پلانے والى اپنے بچے كو بھول جائيگا، اس دن اللہ زبردست مالك الملك جو ہر چيز كا خالق ہے منادى كريگا:

آج بادشاہى كسى كى ہے ؟

كوئى بھى جواب دينے والا نہيں ہوگا، كيونكہ اللہ مالك الملك كے علاوہ كوئى بادشاہ اور سلطان نہيں ہوگا.

ہم آپ كے باپ اور سب گھر والوں اور خاندان والوں كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كريں اور وہ لوگوں كى باتوں كى وجہ سے آپ پر ظلم مت كريں، كيونكہ روز قيامت انہيں اس ظلم كا جواب دينا ہوگا.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے ہر ايك شخص ذمہ دار اور راعى ہے، اور تم ميں سے ہر ايك سے اس كى ذمہ دارى اور رعايا كے بارہ ميں باز پرس كى جائيگى، حكمران ذمہ دار ہے، اور اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں سوال كيا جائيگا، اور مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے، اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں سوال كيا جائيگا، اور عورت اپنے خاوند كے گھر كى ذمہ دار ہے اور اس سے اس كى ذمہ دارى كے بارہ ميں سوال كيا جائيگا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 893 ).

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى نے جس بندے كو بھى كسى رعايا كا حاكم بنايا اور وہ اپنے رعايا كے ساتھ ظلم كرتا ہوا مر گيا تو اللہ تعالى اس پر جنت كو حرام كر ديگا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 142 ).

آپ كا باپ اور ماں جو آپ سے چاہتے ہيں وہ آپ كے ساتھ دھوكہ اور فراڈ اور ظلم ہے اور عدم نصيحت ہے، اس ليے انہيں اس شديد وعيد سے بچنا چاہيے جو مندرجہ بالا احاديث ميں وارد ہوئى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے گھر اور خاندان والوں كو ہدايت نصيب فرمائے، اور آپ كى پريشانى اور مشكل كو دور كرے.

واللہ اعلم .

عقد نکاح خاوند اور بیوی کے درمیان معاشرت
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔